اسلام آباد (جیوڈیسک) ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری ہونی والی رپورٹ ان کی نہیں ہے۔ عام انتخابات سے متعلق جاری کی گئی رپورٹ عالمی اور ملکی مبصرین کی سفارشات پر مشتمل ہے۔
عام انتخابات سے متعلق حقائق نامہ 29 ستمبر کو پارلیمانی کمیٹی میں پیش کیا جائیگا۔ الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسران کے کردار سے متعلق فیکٹ شیٹ تیار کر رہا ہے۔ بیلٹ پیپر کی چھپائی اور سیاہی کا معاملہ بھی فیکٹ شیٹ میں شامل کیا جائیگا۔ ایک روز پہلے جاری کی گئی جائزہ رپورٹ میں الیکشن 2013ء میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عام انتخابات میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق درست طریقے سے نہیں ہوا۔ ہر ریٹرننگ افسر اپنے اپنے طریقے سے ان آرٹیکلز کا اطلاق کرتا رہا۔ الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسروں کو نامزدگی فارم کی جانچ پڑتال کی ہدایت بھی نہ کر سکا۔ نیب، نادرا، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کو مکمل معلومات فراہم نہیں کیں جبکہ امیدواروں کے کوائف کی جانچ پڑتال کے عمل کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کئی امیدواروں کو مناسب چھان بین کے بغیر ہی کلیئر کر دیا گیا۔
چھپائی میں تاخیر کے باعث کئی حلقوں میں بیلٹ پیپرز تاخیر سے پہنچے۔ یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم ناکام ثابت ہوا۔ ریٹرننگ افسروں کی بڑی تعداد نے ہاتھ سے بنائے ہوئے نتائج الیکشن کمیشن بھیجے۔ فارم 16 میں نقائص کے باعث ریٹرننگ افسر مذکورہ فارم ہاتھ سے بناتے رہے۔ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کے اضافے کے فیصلے سے بھی ابہام پیدا ہوا۔ تاہم اب الیکشن کمیشن نے اس رپورٹ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری طرف قابل ذکر بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے لاتعلقی کے باوجود یہ جائزہ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
رپورٹ میں الیکشن کمیشن کا لوگو اور ٹیم ممبران کے نام بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے انتخابی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترامیم کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اثاثوں کی تفصیلات پر غلط بیانی پر تین سال قید کی سزا سنائی جائے گی۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر ازخود نہیں کر سکیں گے۔ پولنگ سے 90 روز قبل ووٹ کی منتقلی پر پابندی ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ارسال کی گئی سفارشات میں صدر مملکت کیلئے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر ازخود نہیں کر سکیں گے۔ ترامیمی مسودے میں کہا گیا ہے کہ ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوں گے۔
قومی اسمبلی کے امیدوار کیلئے انتخابی اخراجات کی حد 60 لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کیلئے انتخابی اخراجات کی حد 40 لاکھ روپے ہو گی۔ مسودے کے مطابق اثاثوں کی تفصیلات پر غلط بیانی پر تین سال قید کی سزا سنائی جائے گی۔ اثاثہ جات جمع نہ کرانے والے ارکان کی رکنیت 60 روز کیلئے معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اثاثوں کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کا اختیار ہوگا۔ انتخابات سے ایک ماہ قبل پولنگ سکیم منجمد اور پولنگ سے 90 روز قبل ووٹ کی منتقلی پر پابندی ہو گی۔
امیدواروں کی سکروٹنی کی مدت 7 سے بڑھا کر 15 روز کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مسودے کے مطابق خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دینے پر انتخابات کالعدم قرار دے دیے جائیں گے۔