اسلام آباد (جیوڈیسک) اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریر بیان جمع کرایا گیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزراء سمیت 11 اعلیٰ عہیدیداروں کے خلاف شاہراہ دستور پر قتل کے مقدمہ کے اندراج کا عدالتی حکم غیر قانونی ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ سیشن جج نے لاء آفسیر کے دلائل کو نظر انداز کیا۔
سیاسی انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم انصافی ہے۔ امن و امان کو برقرار رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انتظامیہ نے ہر ممکن حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن دھرنے والوں نے وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی باڑ توڑ کر قانون کی خلاف ورزی کی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایکشن میں اسلحہ بارود استعمال نہیں ہوا، جواب میں کہا گیا ہے کہ شاہراہ دستور پر تصادم میں تین افراد جاں بحق ہوئے، دو افراد کی موت مظاہرین کی اپنی فائرنگ سے ہوئی جبکہ ایک شخص کی موت طبعی تھی۔
حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی رٹ، امن و عامہ کی ذمہ داری کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا پڑا۔ 31 اگست کو واقعہ کی ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی جس کی تفتیش جاری ہے۔ دوسری ایف آئی آر حقائق کے خلاف اور پراپیگنڈے پر مبنی ہے، دوسرا مقدمہ درج کرنے والوں کو اسی مقدمہ کی تفتیش میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف ورزی پر پولیس نے لوگوں کو پکڑا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا، جواب میں سپریم کورٹ سے ریلیف کی استدعا کی گئی ہے۔