بہت شور سنتے تھے

D Chowk

D Chowk

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر

اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیالیس روز سے بیٹھے ہجوم کی حالت اب بھوکے بھیڑیوں کے اُس غول کی مانند ہے جو اِس انتظار میں ہوتے ہیںکہ جونہی کسی کی آنکھ جھپکے اور دوسرے اُسے چیر پھاڑ کھائیں۔ عمران خاں اور مولانا قادری کی ساری سیاست کا دارو مدار اب حکومت کی کسی ممکنہ غلطی پر ہی ہے کیونکہ اب اُنہیں اِس کے سوا کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی۔دھرنے ”دھرنیوں” میں بدل چکے ،الیکٹرانک میڈیا”مُکھ” موڑ کر سیلابوں کی کوریج اور دوسری سرگرمیوں میں مگن ہوچکا اور قوم بھی ”اوازار”۔جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ دھرنوں پر ایک ارب روپے سے زائد صرف ہو چکے اور ڈی جے بَٹ بھی کروڑوں کما گیا۔یوں محسوس ہوتا ہے

خاں صاحب نے ملکی اور غیرملکی ”مخیر”حضرات سے چودہ اگست کے دھرنے کے لیے جو چندہ اکٹھا کیا تھاوہ ختم ہو گیا۔قصور خاںصاحب کا بھی نہیں ۔وہ سمجھتے تھے کہ بَس دو،چار دنوں میںحکومت کا ”دھڑن تختہ” ہوجائے گا اور وہ فتح کے شادیانے بجاتے اپنے بنی گالہ کے محل میں لوٹیں گے لیکن حکومت ہی ”بُزدِل”نکلی اور دھرنا طول پکڑتا چلا گیا۔

اُدھر حکمرانوں کا یہ عالم ”دودھ کا جَلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ”۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سبق اُنہیں اَز بَر ہے اِس لیے وہ پہلے تولتے ، پھر بولتے ہیںجبکہ مسٹر اور مولانا تو صرف بولتے ہی بولتے ہیں ۔سکرپٹ کے مطابق تو امپائر کی انگلی بہت پہلے کھڑی ہو جانی چاہیے تھی لیکن مسٹر اور مولانا کے ساتھ ”ہتھ” ہو گیا ۔انگلی کھڑی تو ہوئی اور بڑے بھرپور انداز میں ہوئی لیکن جمہوریت کے حق میں ۔فوج میں نئی تقرریوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور افواہ سازی کے سارے کارخانے بند ہو گئے ۔

چھ میجر جنرلوں کو ترقی دے کر لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا اورکراچی کے سابق ڈی جی رینجرز لیفٹیننٹ رضوان اختر کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کر دیا گیا۔ وہ 8 نومبر کو جنرل ظہیر الاسلام کی جگہ اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ منگلا ،گوجرانوالہ ،کراچی اور پشاور کے کور کمانڈرز کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ترقی پانے والے لیفٹیننٹ جنرلز نوید مختار ،بلال حسین ،غیور محمود اور ہدایت الرحمٰن کو مقرر کر دیا گیا۔

یہ سب کچھ ویسے تو ”روٹین” کا حصّہ ہے لیکن ہمارے کچھ مہربانوں، خصوصاََ الیکٹرانک میڈیا نے موجودہ ترقیوں سے پہلے اسے افواہ سازی کے لیے خوب استعمال کیا اور آئی ایس پی آر کی جانب سے بار بارکی وضاحت کے باوجود چائے کی پیالی پر طوفان اُٹھاتے رہے ۔بہرحال اِن ترقیوں اور تقرریوں کے بعد افواہ سازی کا ایک کارخانہ تو بند ہوا ،اب دیکھیں ہمارا بے باک الیکٹرانک میڈیا کون سے نئے گُل کھلاتا ہے ۔

دھرنے میں شریک سونامیوں اور انقلابیوں کو حوصلہ بخشنے کے لیے امپائر کی انگلی والا مضبوط ترین حربہ تو ناکام ہوا ،شاید اسی لیے اب دھرنوں کو پورے ملک میں پھیلائے جانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے ۔اتوار 21 ستمبر کو کراچی میں اِس کی پہلی جھلک نظر آئی اور اب 28 ستمبر کہ مینارِ پاکستان پر سونامیوں کا دھرنا ہو گا۔کراچی کے اجتماع کو یقیناََ مایوس کُن قرار نہیں دیا جا سکتالیکن یہ متاثر کُن بھی نہیں تھا کیونکہ اڑھائی کروڑ کے شہر کراچی میںایم کیو ایم دو گھنٹے کے نوٹس پر اِس سے کہیں بڑا اجتماع کر سکتی ہے اور جماعت اسلامی بھی۔بہرحال اسلام آباد کے دھرنے کے مقابلے میں یہ متاثر کُن ضرور تھا۔شاید اسی لیے خاں صاحب بھی بڑے سرشار نظر آئے اور بار بار پیپلز پارٹی کو للکارتے رہے۔

اُنہوں نے کہا کہ بھٹو کے نام پر عوام سے جھوٹے وعدے کیے جاتے رہے اور ہاریوں کا استحصال کیا جاتا رہا ۔اُنہوں نے اندرونِ سندھ کے سندھیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ آ رہے ہیںاور وہ وڈیروں کا مقابلہ کرکے دکھائیں گے۔اب تو خاں صاحب للکارنے میں الطاف بھائی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ہم نے کئی دفعہ کسی ایسے خوش نصیب شخص یا جماعت کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کپتان صاحب کے مَن بھاتا ہو لیکن ناکام رہے ۔شاید خاں صاحب کی یہ عادت ہو کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُس سے ہمکلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں

PPP

PPP

خیال تو یہی تھا کہ خاں صاحب ایم کیو ایم پر گرجیں ،برسیں گے لیکن شامت آ گئی پیپلز پارٹی کی ۔پیپلز پارٹی والے اب خاں صاحب کی باتوں کا جواب تو دے رہے ہیں لیکن وہ مزہ کہاں جو خاں صاحب کے مُنہ سے جھڑتے ”پھولوں”میں ہے ۔البتہ ایک غلطی بہرحال ہو گئی کہ تحریکِ انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی ،جاوید ہاشمی کو چھیڑ بیٹھے ۔اچھے بھلے ”سیانے بیانے” شاہ محمود کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ باغی کو ”داغی” قرار دے بیٹھے ۔اُنہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ اِن دنوں جاوید ہاشمی کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔اب ہاشمی صاحب ایک دفعہ پھر ”چھِڑ” گئے ہیں اور قوم خوش کہ نِت نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر ہاشمی صاحب پارٹی بدلنے کی بنا پر ”داغی” قرار دیئے جاتے ہیںتو یہ الزام تو شاہ محمود قریشی کی ذات پر بھی آتا ہے ۔

ہاشمی صاحب تو بَرملا اقرار کرتے ہیں کہ اُنہوں نے پانچ دفعہ بغاوت کی لیکن شاہ محمود صاحب نے اِس معاملے میں چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے حالانکہ وہ بھی ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ کے رکن رہے پھر نواز لیگ کی وزارت کا مزہ چکھتے ہوئے پیپلز پارٹی میں آن دھمکے اور وزیرِ خارجہ کا عہدہ اِس وعدے پر سنبھالا کہ پیپلز پارٹی کے آخری دو سالوں میں اُنہیں محترم یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیرِ اعظم بنایا جائے گا لیکن گیلانی صاحب بھی ”گدی نشین” تھے اور اُنہوں نے یہ گدی ”ایویں ای” حاصل نہیں کر لی تھی ۔وزارتِ عظمیٰ حاصل کرتے کرتے شاہ محمود صاحب وزارتِ خارجہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔اُس وقت قریشی صاحب کی یہ حالت تھی کہ

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

اِدھر اُدھر لڑکھڑاتے شاہ محمود صاحب کوایک دفعہ پھر اپنی پرانی پارٹی” نواز لیگ” کی یاد ستانے لگی لیکن وہاںجاوید ہاشمی براجماں تھے اِس لیے وہاں بھی دال نہ گَلی اور چار و ناچارشاہ صاحب تحریکِ انصاف کے وائس چیئر مین بن گئے ۔شاید کپتان صاحب نہیں جانتے کہ اُن سے بھی کہیں زیادہ شاہ محمود قریشی وزارتِ عظمیٰ کے حسین خوابوں کی دنیا میں رہنے والے شخص ہیں۔

وہ تحریکِ انصاف میں جہانگیر ترین اور اعظم سواتی سمیت اپنا مضبوط گروپ تشکیل دے کر اپنی راہ کے آخری ”روڑے” جاوید ہاشمی کو بھی فارغ کروا چکے ہیں ۔ہم تو یہی دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کپتان صاحب کو شَر پسندوں کے ”شَر” سے محفوظ رکھے کیونکہ یہ حقیقت تو بہرحال مسلمہ ہے کہ خاںصاحب نسلِ نَو کی اکثریت کے اب بھی ہیرو ہیںاور اگر اُن کی پارٹی کے اندر بغاوت نہ ہوئی اور خاں صاحب کو گِر گِر کے سنبھلنے کا سلیقہ آ گیا تو وہ ملک و قوم کے لیے اثاثہ ثابت ہونگے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر