چربہ سازی تو پہلے بھی ہوتی تھی مگراس میں چند باتوں کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جس فیچر کی چوری کی جاتی اس کو شائع وہاں کروایا جاتا جہاں تک اصل خالق کی رسائی مشکل ہولیکن آج کل پاکستان میں ادبی چوری ،کالم چوری کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے پہلے تو چور ایک آدھ فقرہ ،پہرہ ،خیال چراتے تھے مگر آج کل پورے پورے کالم چرا لیے جاتے ہیں اور دیدہ دلیری جسے چوری اور پھر سینہ زوری بھی کہا جاسکتا ہے کہ کالم کا نام تک تبدیل نہیں کیا جاتا چند روز قبل میرا کالم چوری ہوا تو میں نے اس پر ایک پوسٹ بنائی۔
شوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جسے پڑھ اردو نیو زویبwww.unnpakistan.com کے چیف ایڈیٹر جناب ڈاکٹر بی اے خرم نے ایک کالم لکھا اپنے کالم بعوان چور میں لکھتے ہیں کہ ، اختر سردارچودھری (راقم الحروف )جو ایک کالمسٹ ہیں انہوں نے فیس بک پہ ایک پوسٹ لگائی جسے دیکھ کر وطن عزیز کے دیگر چور بھی بے ساختہ یاد آتے گئے ان کی پوسٹ میں ” مسلسل جدوجہد” کرنے والے ”کالم چور” کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی ”مسلسل جدوجہد” سے کسی کی عرق ریزی والی محنت پہ منٹوں میں پانی پھیر نے کی مہارت رکھتاہے موصوف فیصل آباد کے ایک روزنامہ سے منسلک بھی ہے اور ان کی دیدہ دلیری جسے ہم ”کالم چوری ” کا نام دینے میں حق بجانب ہیں موصوف نے ”قلم قبیلہ” کے نامور لوگ جن میں امتیاز شاکر،رقیہ غزل،محمد یاسین صدیق اور اختر سردارچودھری (راقم الحروف )کے شائع شدہ کالموں کو دوبارہ اپنے نام سے مختلف اخبارات میں شائع کرایاکالم نگار اختر سردارچودھری نے سوشل میڈیا پہ ایک اہم موضوع کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
ان کی یہی نشاندہی یہ کالم لکھنے کا سبب بنی۔ شاہد شکیل جن کے کالم ”گردش ایام ” کے نام سے پاکستان کے مختلف اخبارات کی زینت بنتے ہیں وہ بھی کئی بار کالم چوروں کے ہاتھوں اپنی محنت پہ پانی پھرتا دیکھ چکے ہیں انہوں نے کالم کے اصل مالک کے اصل کالم کو”سیم ٹوسیم”یعنی جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پہ ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہیں کیااسے کہتے ہیں ” بے ایمانی مکمل ایمانداری سے” مجھے اپنے کالم چوری کرنے والے سے کہنا ہے۔
اگر آپ کومیرے کالم اتنے ہی پسند ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں میں ان کو اپنے مزید کالم ان کی ڈیمانڈ اور ان کی پسند کے موضوع پر لکھ کر دینے کو تیار ہوں ( فری میں نہیں) چوری کی ایک قسم یہ بھی ہے یہ بڑی سائنٹیفک چوری ہے قومی اخبارات کو لکھے جانے والے شوقیہ کالم نویسوں کی طرف سے جو کسی کالم سے کم نہیں ہوتے ان کو عام طور پر تو شائع ہی نہیں کیا جاتا ۔اگر کیا بھی جاتا ہے تو کالم کا جو حال ہوتا ہے اسے آپ اخبارات میں دیکھ سکتے ہیں ۔یہاں ایک خاص بات جو شوقیہ کالم نویس لکھتے ہیں وہ بہت خاص کالم ہوتے ہیں اس بات کا اعتراف جناب سینئر کالم نویس حسن نثار نے بھی ایک دفعہ کیا تھا ۔یہ جو کالم نویس ہیں ایک تو بہت سچ لکھتے ہیں فری لکھتے ہیں۔
Theft
بہت اچھا لکھتے ہیںاب ہوتا یہ ہے کہ ان کے کالمز سے خیالات چرا کر اپنے الفاظ میں بیاں کر دیا جاتا ہے اس چوری میں اگر اسے چوری کہا جائے بڑے بڑے کالم نویس ملوث ہیں ۔اور بقول سازش تھیوری کے میرے پاس اس کا ثبوت نہیں ہے ۔مجھے کسی نے کہا ہے ، لگتا ایسے ہی ہے وغیرہ (ہم سازش تھیوری کا سہارا کیوں نہیں لے سکتے ، ایسا کیوں نہیں کہ سکتے جب بڑے بڑے رہنماء سیاست دان ،چینل ، ایسا کہ سکتے ہیں ) اصل میں کچھ بونے اچھل اچھل کر خود کو بڑے قد کاٹھ کا ثابت کرنے ،سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اوچھی حرکات پر اتر آئے ہیں ۔آپ نے بھی ایسا دیکھا ہو گا اور میں نے تو ایسے کالم بھی زہر مار کیے ہیں جن میں سے ایک پہرہ کسی ایک کالم سے لیا ہوتا ہے۔
دوسرا کسی اور کالم سے اس طرح ایک کالم بنا کر سارے اخبارات کو بھیج دیا جاتا ہے ،دو چار اخبارات میں شائع بھی ہو جاتا ہے یہ تو عام سی بات ہے خاص بات یہ کہ جن کو انگلش کی کچھ سمجھ ہوتی ہے وہ گوگل پر سرچ کرتے ہیں اور ملنے والے آرٹیکل کا ترجمہ کرتے ہیں دو چار آرٹیکل کا جوڑ توڑ کرتے ہیں اور ایک نواں نکور کالم بنا کر کالم نویس بن جاتے ہیں، پاکستان کا ایک نامور ادیب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے تو ایسے ایک کتاب لکھ ماری اور خود کو مصنف لکھا بعد میں یہ کتاب(جناب حیدر قریشی کی محنت سے) ترجمہ ثابت ہوئی تو اس بات کو ماننے کی بجائے اردو ادب میں دو گروپ بن گئے کہ ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے۔
اس پر اب بھی دونوں طرف سے دھواں دار تحریریں لکھی جارہی ہیں ۔اسی طرح پاکستان کے صفحہ اول کے اخبار کا ایک نام ور کالم نویس کسی اور کا کالم چوری کرنے سے خود کو بچا نہیں سکا ۔میری تمام کالم نویس چوروں سے اپیل ہے کہ جب آپ ایسا کریں تو ساتھ ماخوذ لکھ دیا کریں ،حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے ،نام بھی لیا جا سکتا ہے ،اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس کالم کی وساطت سے صحافیوں اورکالم نگاروں کی تنظیموں سے خاص کر کالمسٹ کونسل آف پاکستان سے گزارش ہے کہ کالم چوروں کے لیے اس کی چوری ثابت ہونے پر کسی سزا کے اطلاق کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔