تحریر : ایم آر ملک یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی جنگ یا معرکہ جو خصوصاً طبقاتی بنیادوں پر لڑا جا رہا ہو میں کامیابی آبادی کے وسیع حصے(نوجوانوں )کے اشتراک کے بغیر نا ممکن ہے۔ انسانی تاریخ کا جائزہ بھی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ معاشروں کو بدل کر رکھ دینے والی تحریکیں خواہ وہ غلاموں کی بغاوتیں ہوں جنگوں کے خلاف دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے مظاہرے ہوں یا ہڑتالیں نوجوان نسل بڑے مقاصد کی لڑائیاں لڑتی نظر آتی ہے۔
وطن عزیز کی آبادی اس وقت18کروڑ55لاکھ ہے جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ ملک کا مستقبل کہلانے والی یہ نسل جس قدر بے روز گاری اور اس سے پیدا ہونے والی اذیت کا سامنا آج کررہی ہے شایدہی ماضی میں کوئی نسل اس سے دوچار ہوئی ہو۔ حکمران طبقہ نے اقتدار میں آنے سے قبل جو تمام وعدے اس نسل سے کیے آج کوئی بھی وعدہ وفا کرنے کو وہ تیار نہیں جواز کے طور پر جو وجہ پیش کی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت آج اپنی تاریخ کے بد ترین دو ر سے گزر رہی ہے مگر یہ ان کی اپنی پیدا کردہ ہے معیشت میں اتنی سکت باقی نہیں بچی کہ وہ اس ملک کے لوگوں کو کچھ دے سکے۔ حکمران لوگوں کو کچھ دینے کی بجائے ان سے لے رہے ہیں۔
جب ہم حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی رقم کو دیکھتے ہیں تو ملک کے عوام اس بوجھ کو 1551 ارب روپے کی شکل میں ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ٹیکس قطعاً اس مد میں نہیں دیا جا تا کہ حکومت لوگوں کے لیے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھپوائے جن میں روزانہ ضرورت ہے لکھا ہو مگر یہ نوکریاں ان نوجوانوں کے آنے سے پہلے فروخت کردی گئی ہوں جو میرٹ اور استحقاق رکھتے ہوں۔ عوام ان ٹیکسو ں کی ادائیگی کے بدلے اپنی بے روز گار نسل کے لیے روز گار چا ہتے ہیںآج ملک کے 8ہزار صنعتی یونٹ بند ہونے سے ایک بڑی تعداد نوجوان نسل کی ہے بے روز گار ہے اور آپ دیکھیں کہ اس نسل کا کہاں کہاں استحصال نہیں ہورہا ۔گریجویشن لیول کا ایڈمشن فارم خریدنے کی قیمت 900 روپے وصول کی جاتی ہے اور یہ قیمت ایڈمیشن نہ ہونے کی صورت میں نا قابل واپسی ہوتی ہے۔ جس میں یونیورسٹی کی چند ایک سیٹیں حاصل کرنے کے لیے لاکھوں نوجوان اپنے فارم جمع کراتے ہیں یوں آج نوجوانوں کو روز گار دینے کی بجائے ان سے مزید کچھ چھینا جا رہا ہے۔
Unemployment
لاکھوں نوجوان بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں مگر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا طبقہ ہوس کے اس بازار میں بیٹھا ہے جو معیشت کی ہوس کابازار ہے جس میں وہ اپنے منافعوں کو ڈبل کرنے کے علاوہ اور کچھ سوچنا نہیں چا ہتا کیونکہ یہ مسئلہ اس کا نہیں اس وقت وطن عزیز میں 3 کروڑ 84 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں صوبہ پنجاب میں 2کروڑ 10لاکھ سندھ میں95 لاکھ خیبرپی کے میں60 لاکھ اور بلوچستان میں19 لاکھ بے روزگار ہیں ان بے روز گاروں میں 1کروڑ 45 لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں مختلف حربوں سے ان کے جذبات کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں گر کر وہ منشیات کے استعمال سمیت کئی جرائم اور برائیوں میں اپنی زندگیوں کو دفن کررہے ہیں ۔ ان نوجوانوں کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔جبکہ نوجوان کسی قسم کا جرم کر تا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن حقیت میں وہ اس جرم کر ذمہ دار نہیں ہے اس جرم کا ذمہ دار یہ بوسیدہ اور کہنہ نظام ہے جس نے مایوسی اور نا امید ی نئی نسل کا کا مقدرکر دی کیونکہ جب کو ئی بے روز گار نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھوںمیں تھامے کسی دفترکی دہلیز پار کرتا ہے تو اسے وہاں بیٹھے بیوروکریٹ سے دھتکار سننے کو ملتی ہے۔ اس کے اثرات سے نکلنے کی خواہش میں وہ جرائم کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
ایک طرح سے اس نظام کے خلاف وہ اپنا غصہ اتارتا ہے دوسری جانب شوبز نوجوانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہا ہے عصر حاضر میں بننے والی فلموں اور ڈراموں میں جو بڑی بڑی گاڑیاں بنگلے اور عیش و آرام کی جس زندگی کوپردہ سکرین پر دیکھایا جا رہا ہے وہ کسی طرح بھی یہاں کے محنت کش عوام اور ان کی نوجوان نسل سے مشابہت نہیں رکھتی وہ ایک خواب ہوتی ہے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ہماری معاشی حالت اس قابل نہیں کہ ان تمام لوازمات کا حصول ممکن ہو کیونکہ اس بے روز گاری بھوک اور غربت کے سماج میں اچھی زندگی محض ایک خواب ہے اس طرح یہ بے روز گار نوجوان احساس کمتری کا شکار ہوکر اس دنیا سے فرار چا ہتا ہے جس میں غلاظتیں اور ذلتیں ہیں وہ موت کو گلے لگا کر کسی درخت کے ساتھ جھول جا تا ہے۔
منشیات اور جرائم میں گرکر قسطوں میں موت خرید کرتا ہے یا پھر ایک ابدی جنت کے حصول کے لیے دہشت گردی کی جدید ترین صنعت بھی اس کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی خا طر وطن عزیر میںہر جگہ تیار ہے یقیناً بے روز گار نوجوان نسل نے بھی اپنی توقعات عمران خان سے وابستہ کر لی ہیںیہی وجہ ہے کہ وہ ن لیگ کی طرف سے لگائی گئی لیپ ٹاپ کی لوٹ سیل کے باوجود تحریک انصاف کو ہی اپنی نمائندگی کا حق دار تصور کرتی ہے ریڈ زون میں کھڑا عمران خان پسے ہوئے طبقات، مزدوروں، کسانوں کے علاوہ اس نئی نسل کا مقدمہ بھی لڑ رہا ہے۔