زندگی میں ہر انسان کے خيالات اور نظريات دوسرے سے مختلف ہوتے ہین کيونکہ ہر ایک کی اپنی سوچ ہے ليکن یہ بات سمجھنے کے بجائے اس کو اختلافات کا باعث بنا لیا جاتا ہے کسی کو پابند نہيں کیا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کے ذہن سے سوچے اور ہر حال مين آپ کو ہی صحیح جانے اختلافات نظریات تک رہيں تو وجہ سمجھ آتی ہے ليکن جب ان کو شخصیات سے منسلک کر ديا جائے تو بگاڑ کی وجہ بنتی ہے !
ھمارا مذھب اسلام تو ايک خوبصورت مذھب ہے جو محبت حسن اخلاق مساوات اور رواداری کا سبق دیتا ہے انصاف وعدل جس کے زرين اصول ہين ھمارے مذھب نے ایسے انسان کو بہترین قرار دیا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہین آج ھم ان اصولوں کو بھلا بيٹھے ہيں عوام کے منتخب نمائندے جب ميڈیا پرایک دوسرے کے لئے غلط زبان اور غلط الفاط کا استعمال کرتے ہيں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے !
ان کی وفاداريان اپنی پارٹی تک محدود ہوکر رہ جاتی ہين کيونکہ انہين اگلے اليکشن کے لئے ٹکٹ بھی تو چاہیے ہوتا ہے اور یہی خود غرضی انہين حق اور سچ کہنے سے روکتی ہے وہ ديکھتے ہوئے بھی اندھے ہی رہتے ہين اس کے برعکس مخالف کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنے سارے داؤ پيچ آزما ليتے ہين اکثر تو تميز کے حروف ابجد بھی بھول جاتے ہيں عمران خان ہوں یا علامہ طاہرالقاری صاحب دونوں ملک کے اس نظام کو غير منصفانہ قرار ديتے ہين اور عوام مين شعور کی بيداری کو لازم قرار ديتے ہيں اب ان کی اس بات کی ضد ميں ہمارے وزرائے کرام تہذيب اور تميز کو بالائے طاق رکھ ديتے ہيں اور صرف قادری کہہ کر پکارنے لگتے ہيں
Shaykh al-Islam
شيخ الاسلام کا خطاب پانے والے عالم ديں کی عالمانہ قابلیت سے انکار نہيں کيا جاسکتا آپ کے سیاسی اختلافات ايک طرف لیکن کبھی تہذيب کا دامن ھاتھ سے نہين چھوڑنا چاہيے ھمارے روبہ زوال ھونے کی وجہ یہی ہے کہ ھم صاحب علم لوگون کی قدر نہيں کرتے بحثيت ايک عالم دين کے ان کے ساتھ طرز تخاطب تو اچھا ہونا چاہيے سياسی ماحول کی گرما گرمی نے نظریات کے اختلافات کو شخصيات سے جوڑ ديا
جنيد جمشيد نے عمران خان کا ساتھ دينے کا کہاتو وہ بھی عتاب کا شکار ہو گئے ان کے حلۓ کوبھی تنقيد کا نشانہ بنا ديا گيا خواجہ آصف نے فورا کہہ دیا کہ حليہ بدلنے سے کوئی عالم نہین ہو جاتا اس بات پر جنید جمشید کے ساتھ علامہ طاہر القادری صاحب دونوں کے نام لے لئے ان سے یہ پوجھئے اچھا مسلمان اور عالم ہونے کے لئے کيا دليل درکار ہو گی؟ کیا ان کی اسلام سے رغبت ان کا علم نہين طاہر کرتا؟ جنيد جمشيد نے اپنے پيک کے دور ميں اپنی راہ تبديل کی اسلام کا رستہ چنا اس وقت ان کے پيش نظر کوئی وزارت نہين تھی
Sura Ikhlaas
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سياستدان اسلامی مملکت کے اعلی عہدے دار ہو سکتے جنہيں سورۃالاخلاص تک نہين آتی ؟ اپنے مذھب سے لاعلمی بھی معاشرے کے بگاڑ کی وجہ ہے ھمارے مذھب کا ايک خوبصورت پہلو یہ ہے اس نے حقوق وفرائض لازم وملزوم قرار دئيے ہين لیکن مذھب سے دوری کی وجہ سے ان سب حقيقتوں سے آگاہی وہ حاصل کر ہی نہين پاتے دينی اور دنياوی دونوں علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے ليکن بہتری تب ہی آئے گی جب حقيقت ميں حاصل کیا جائے جعلی ڈگريون سے نہيں!