واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام میں دیگر ممالک کے لوگوں کی طرح پاکستانی باشندے بھی موجود ہیں تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ داعش کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان ونے چاولہ نے بتایا کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ داعش کے جنگجووں کی مدد کیلئے خود امریکی شہری بھی شام گئے ہیں۔
اسکے علاوہ یورپ سے ایک ہزار افراد وہاں گئے ہیں لیکن ان میں اکثریت مشرق وسطیٰ کے شہریوں کی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان سے کتنے لوگ وہاں گئے ہیں لیکن ہم کو سمجھنا ہے کہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کس انداز میں داعش کے خلاف عالمی برادری کا ساتھ دے سکتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ موجودہ صورتحال اور داعش کے جنگجوئوں کی کارروائیوں کو دیکھ کر مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔ امریکی فوج کی بحرالکاہل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل سیموئل لاک لیئر نے کہا ہے کہ ایشیا سے قریباً ایک ہزار افراد شام اور عراق میں لڑنے والی داعش میں شامل ہوچکے ہیں جن میں فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے 100 فوجی بھی شامل ہیں تاہم کمانڈر نے پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔
ادھر عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے انکشاف کیا ہے داعش کے انتہا پسند امریکہ اور پیرس میں میٹرو نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے تاہم ادھر امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے عراقی رہنما کے دعوے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے پاس حیدر العبادی کی معلومات کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
دریں اثنا امریکی فوج نے کہا ہے کہ شام میں تیل ریفائنریز سے اسلامک اسٹیٹ کو روزانہ تقریباً 12 کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے شام میں دولتِ اسلامیہ کے زیرِقبضہ مشرقی علاقوں میں قائم آئل ریفائنریز پر فضائی حملوں کی تصاویر جاری کی ہیں۔ ان تصاویر میں حملے سے پہلے اور بعد کی تباہی کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔