کیا ہم جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کیا کھلا پلا رہے ہیں؟اکثر والدین اس بات سے قطعی انجان ہیں کہ وہ بچوں کو کونسی ایسی غذا کھلاتے ہیں کہ جس سے بچے موٹاہونا شروع ہوجاتے ہیں یا بیمار رہتے ہیں یقینا بچوں کی نگہداشت اور آب و ہوا کے ساتھ ساتھ ان کی غذا بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور جب تک ہم بچوں کو ان کی عمر کے مطابق معیاری ،صحت افزا اور غذائیت سے بھرپور غذا فراہم نہیں کریں گے تو اس معمے کو کبھی حل نہیں کر پائیں گے کہ ہمارا بچہ اکثر و بیشتر کیوں بیمار رہتا ہے یا کیوں موٹاپے کا شکار ہے؟
فوڈ واچ تنظیم نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ والدین بچوں کواکثر میٹھا دلیہ ،چاکلیٹ ،مٹھائیاں ،میٹھی چائے اور بسکٹ وغیرہ کھلاتے ہیںجو بچوں کی صحت کیلئے نقصان دہ ہے انہی اشیاء کے استعمال سے بچے بیمار ہوتے ہیں دانت خراب یا موٹا ہونا شروع ہو جاتے ہیں،تنظیم نے یہ تمام غذائیں مارکیٹ سے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور مینو فیکچررز کو ہدایت کی ہے کہ کوئی ایسی نئی مصنوعات تیا ر نہ کی جائیں جن سے بچوں کو نقصان پہنچے۔
تمام والدین بچوں کی بہتری چاہتے ہیں اور عام طور پر اشتہارات کو دیکھ کر بچوں کی غذائیں خریدی جاتی ہیں، کمپنیز اپنے اشتہارات میں بچوں کی صحت اور مصنوعات کی کوالٹی و معیار کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کرتی ہیںکہ ہماری تیار کردہ فلاں فلاں مصنوعات میں بہترین ،محفوظ اور اعلیٰ معیار کے اجزا ء شامل ہیں جو بچوں کیلئے صحت مند اور غذائیت سے بھرپور ہیںجن کے استعمال سے بچے صحت مند رہیں گے۔
فوڈ واچ کا کہنا ہے یہ بات درست ہے کہ کمپنیز اپنے طویل تجربے کی بنا پر اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ بچے کیا پسند کرتے ہیں اور انہیں کیسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہر غذا میں چینی کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے صرف کمپنی کے دعوے ہی کافی نہیں ہوتے اور نہ ہی والدین اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ بچوں کی غذاؤں میں کتنی مقدار میں چینی استعمال کی گئی ہے وہ محض اشتہارات، کمپنی کے نام یا جانی پہچانی مصنوعات کے گرویدہ ہوتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے کہ غذاؤں میں کون سا اور کتنی مقدار میں کیا شامل کیا گیا ہے خرید لیتے ہیں۔
برلن میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس جس میں فوڈ واچ تنظیم کے کارکنان کے علاوہ وفاقی ڈینٹل ایسوسی ایشن کے ممبران اور کنڈر کلینک کے کئی ڈوکٹرز نے شرکت کی ،جس میں بتایا گیا کہ چھوٹے بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء میں وہ تمام اجزاء شامل نہیں ہوتے جو کمپنی اپنے اشتہارات میں بڑھ چڑھ کر بیان کرتی ہے ،تقریباً تمام کمپنیز بچوں کی غذاؤں میں چینی کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتی ہیں جس سے نومولود بچے چینی کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں
رفتہ رفتہ ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے مثلاًہائی بلڈ پریشر ،موٹاپن یا ذیابیطس کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے علاوہ چینی کا زیادہ مقدار میں استعمال بچوں کے دانتوں اور مسوڑوں کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، چینی سے بھرپور غذائیں کھانے سے دنیا بھر میں ہر دوسرا بچہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے ان بیماریوں کی جڑ صرف چینی یا میٹھے مشروبات ہی نہیں بلکہ بچوں کے دانتوں کی صفائی نہ کرنا بھی والدین کی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔
فوڈ واچ تنظیم کا کہنا ہے کہ ڈینون اور میلوپا کمپنی نے بچوں کے کھانے پینے کی بہت سی مصنوعات واپس لے لی ہیں البتہ ہپ اور نیسلے کی مصنوعات بدستور مارکیٹ میں دستیاب ہیں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہماری مصنوعات میں ایسے کوئی اجزاء شامل نہیں جن سے بچوں کی صحت کو خطرہ ہو،کانفرنس میں فوڈ واچ نے نئے قانونی فوڈز ریگوکیشن متعارف کروانے پر زور دیا
Nutrition
انہوں نے مصنوعات کی مکمل جانچ پڑتال کرنے کی تلقین کی ڈوکٹرز اور غذائیت پر ریسرچ کرنے والے اداروں سے اپیل کی کہ جب تک وہ مکمل طور پر مطمئن اور متفق نہ ہوں بچوں کی کوئی غذا مارکیٹ میں متعارف نہ کروائی جائیں،بچوں کے ڈوکٹرز کا اولین فرض ہے کہ والدین کو ہدایت کریں کہ اپنے بچوں کی عمروں کو مد نظر رکھ کر اور پیکنگ کا بغو ر مطالعہ کرنے کے بعد ہی اشیاء خریدیںبالخصوص ایکسپائیر ڈیٹ کا خاص خیال رکھا جائے۔
فوڈ واچ کا کہنا ہے دنیا بھر میں کمپنیز مقابلے کی دوڑ میں قیمتوں کی کمی یا کسی نئی غذا کو متعارف کروانے میں اشتہارات کا سہارا لیتی ہیں انہیں بچوں کی صحت سے زیادہ اپنی مصنوعات کے زیادہ سے زیادہ فروخت میں دلچسپی ہوتی ہے،یورپی وزارت صحت نے تمام کمپنیز کو اپیل کی ہے کہ نئی مصنوعات میں کم سے کم چینی کا استعمال کیا جائے اور بچوں کی عمروں کو مد نظر رکھ کر مصنوعات تیار کی جائیں اور لیبل بھی شفاف عیاں ہوں تاکہ والدین مصنوعات خریدتے وقت کسی شش وپنج یا کشمکش میں مبتلا نہ ہوں اور مطلوبہ غذا بے خوف و خطر خرید سکیں۔
فوڈ واچ کی تنظیم نے ڈوکٹر ز کو بھی ہدایت کی کہ والدین کو پابند کیا جائے کہ ہر چھ ماہ بعد ڈینٹل ڈوکٹر سے رجوع کیا جائے،کانفرنس میں تمام اداروں نے بالخصوص والدین کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ سپر مارکیٹ میں بچوں کی مصنوعات خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ جو غذا آپ خرید رہے ہیں کیا واقعی وہ آپ کے بچے کیلئے مفید ہے اور ان تمام مصنوعات سے دور رہیں جو آپ کے بچے کی عمر سے میچ نہیں کرتیں۔
مغربی ممالک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو کسی قسم کی لا پرواہی یا غیر ذمہ داری کا ثبوت دے تمام ادارے مل جل کر لیکن اپنے طور طریقوں سے بچوں سے لے کر قریب المرگ افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں،تما م غذاؤں کو مکمل چیک اور ریسرچ کرنے کے بعد ہی مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے تاکہ لوگ بے خوف و خطر اپنی من پسند اشیاء خرید سکیں۔
کاش پاکستان میں بھی کوئی ایسا ادارہ قائم ہو جو کھانے پینے کی اشیاء کو چیک کرے اور اس وقت تک مہلک اور جان لیوا اشیاء کو لوگوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے جب تک ریسرچ مکمل نہ ہو ،لیکن شاید یہ خواب ،خواب ہی رہے گا کیونکہ بادشاہوں کے محلوں میں تو مکھی بھی پر نہیں مار سکتی اور غریب عوام کے مقدر میں مکھیوں اور رنگ برنگے ڈینگیوں سے بھرا بریک فاسٹ ،لنچ اور ڈنر چوپیس گھنٹے ملک کے کونے کونے میں دستیا ب ہے۔ کھاؤ تب بھی مرو نہ کھاؤ تب بھی مرو۔۔۔۔