بھارتی موزیر اعظم نریندر مودی مودی 17 ستمبر 1950 کو گجرات کے مہسانہ ضلعی میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دامودر داس ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے۔ بچپن میں ان کے ذہن میں سنیاسی بننے کا بھی خیال آیا تھا اور وہ کچھ دن راماکرشن مشن میں بھی جا کر رہے۔ 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں سالانہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک کے دورے پر گئے۔
امریکہ میں آمد سے قبل وفاقی عدالت نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سمن جاری کردیئے جو 2002 کے گجرات فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے بارے میں ہیں جبکہ وہ ریاست گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ مودی کے خلاف سمن امریکی وفاقی عدالت نے نیو یارک کے جنوبی ضلع سے نیو یارک کی امریکی انصاف مرکز کی جانب سے داخل کردہ ایک مقدمہ کی ایماء پر جاری کئے۔ مودی کے خلاف مقدمہ غیر ملکی اثاثہ جات کے دعووں کے قانون اور اذیت رسانی کے شکار افراد کے تحفظ کے قانون کے تحت دائر کیا گیا ہے نقصانات کیلئے مالی اور تعزیررتی معاوضہ طلب کیاگیا ہے۔
دو صفحات پر مشتمل شکایت میں مودی پر الزام عائد کیاگیا ہے کہ وہ انسانیت سوز جرائم کے مرتکب ہیں۔ماورائے عدالت ہلاکتوں،اذیت رسانی اور متاثرین کو ذہنی و جسمانی صدمہ پہنچانے میں ملوث رہ چکے ہیں۔ متاثرین کی اکثریت مسلم برادری کی تھی۔ مودی کے خلاف اذیت رسانی کا مقدمہ انسانی حقوق کا استحصال کرنے والوں کیلئے چاہے و ہ کہیں بھی ہوں ایک بلند آہنگ پیغام دیتا ہے۔ تنظیم اے جے سی کے ڈائرکٹر جان براڈلی نے کہا کہ وقت اور فاصلہ اور اقتدار پر قبضہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ غیر ملکی اذیت رسانی معاوضہ طلبی کا قانون جسے غیر ملکی اذیت رسانی ازالہ قانون بھی کہا جاتا ہے ایک امریکی وفاقی قانون ہے جو سب سے پہلے 1789 ء میں امریکی شہریوں کی جانب سے منظور کیا گیا تھا اور امریکہ کے باہر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے ارتکاب کے بارے میں ہے۔
مقدمہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بھارت کے مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ حکومت مبینہ سمنس کا جو امریکی عدالت نے مودی کے خلاف جاری کئے ہیں جائزہ لے گی۔ مودی کے خلاف 2002 میں گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں نیویارک کی ایک عدالت کی جانب سے جاری عدالتی سمن کو مودی تک پہنچانے کے عوض انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے انعام کا اعلان کیا ہے۔نیویارک کی عدالت نے مودی کو سمن موصول ہو جانے کی صورت میں 21 دن کے اندر اندر عدالت میں جواب داخل کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ریل گاڑی میں آگ لگنے سے 59 انتہاپسند ہندو ہلاک ہو گئے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 3000 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قاتل و غارت کی سرپرستی کی۔اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت، جو بی جے پی پارٹی کی تھی، اس نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔اب تک کسی ہندو کے خلاف عدالتی کارواء نہیں کی گئی۔ یورپی یونین نے اس نسل کشی پر کھلے عام احتجاج کرنے سے گریز کیا، اور یہی طرز عمل امریکہ کا بھی رہا۔
Gujarat Riots
اب بھی مسلمان اس ریاست میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں، اور دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران جہاں ایک امریکی عدالت کی جانب سے گجرات فسادات کے سلسلہ میں سمن جاری کیا ہے وہیں ان کی ریاست گجرات کا ہی بڑودہ شہر فسادات کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعہ توہین آمیز پوسٹوں کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے دوران پولیس بھی انتہاپسندوں کے ساتھ مل گئی ہے۔پورے شہر میں کرفیو کا سماں ہے اور مسلمانوںمیں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ فسادات کے دوران پولیس اہلکاروں نے ہمارے گھروںمیں گھس کر توڑ پھوڑ کی، گالیاں دیں ، خواتین سے بدتمیزی کی اور گلیوںمیں کھڑی موٹر سائیکلوں کو توڑا پھوڑ ا گیاہے۔
اسی طرح مسلم علاقوں سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کر کے تھانوں میں بند کر دیا گیا ہے جس پر مسلم علاقوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور سخت خوف کا عالم ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ انہوںنے یہ گرفتاریاں احتیاطی نقطہ نظر کے طور پر کی ہیں۔ ہندو انتہا پسندتنظیم وشواہندو پریشداس وقت بہت زیادہ زہر پھیلا رہی ہے۔ دو دن قبل فیس بک پر خانہ کعبہ کی توہین پر مبنی تصاویر پوسٹ کرنے پر فسادات شروع ہوئے تھے جس پر بڑودہ میں موبائل پر انٹر نیٹ سروس اور ایس ایم ایس کے ارسال ترسیل پر تین دن تک کیلئے پابندی لگا دی گئی ہے۔
تقریبا بیس موٹر سائیکلوں اور متعدد دوکانوں کو نذرآتش کر دیا گیا تھا بڑودہ میں وکلاء نے سٹی پولیس سربراہ کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کے خلاف آج سوموار سے غیر معینہ ہڑتال کی اپیل کی ہے جس میں انہوںنے کہا تھا کہ شہر میں تشد د پھوٹنے کے ذمہ دار وکلاء ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے، اس پر پاکستان ہم سے براہ راست بات چیت کرے ،اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر بحث کرنے کا مناسب فورم نہیں اور نہ ہی کوئی متنازع معاملہ یہاں اٹھایا جانا چاہئے۔بھارتی وزیر اعظم کے خطاب سے قبل پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی اجلاس سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے عالمی برادی پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جنرل اسمبلی میں تقریر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور دہشت گردی کا ذمہ دارخود بھارت ہے جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کے جنر ل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر مضبوط موقف اختیا رکرنے سے مودی بوکھلا گیا۔ نواز شریف کا خطاب کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات کا ترجمان تھا تاہم حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ انڈیا کی آبی دہشت گردی کے مسئلہ کو بھی عالمی سطح پر اٹھائے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔
بھارت آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اب تک لاکھوں کشمیری شہید کئے جاچکے ہیں اور آئے دن مظالم کا یہ سلسلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ دوسروں پر الزامات لگانے کی بجائے خود دہشت گردی کا سلسلہ ترک کرے اور اپنی آٹھ لاکھ فوج نکال کر کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے۔اقوام متحدہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی غیر جانبداری ثابت کرتے ہوئے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروائے۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لیکر گیا مگر درجنوں قراردادیں پاس ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں کر رہا بلکہ شروع دن سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اور ادارے بھارت سرکار پر دبائو بڑھائیں کہ وہ نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے سے بازرہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل بان کی مون کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت درخواست کریں تو عالمی ادارہ تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کر سکتا ہے۔