ہانگ کانگ (جیوڈیسک) کے چیف ایگزیکیٹو سی وائے لیونگ نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے جمہوری اصلاحات کے حق میں مظاہرے کرنے والوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی مہم ترک کر دیں۔ پانچ دن قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد اپنے پہلے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین انتخابی اصلاحات کے بارے میں چینی حکومت کا ذہن تبدیل نہیں کر پائیں گے۔
ہانگ کانگ میں جمہوری اصلاحات کے حق میں مظاہروں کی وجہ سے نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے اور مظاہرین کے رہنماؤں نے پیر کی شب موجودہ چیف ایگزیکیٹو سی وائے لیونگ کے استعفے کا مطالبہ دہرایا تھا۔ ’اوکیوپائی سینٹرل‘ نامی تحریک کے قائدین نے ایک بیان میں کہا کہ تاریخ جمہوریت کو مکمل شکل میں فراہم نہ کرنے پر ان کی مذمت کرے گی۔
چینی حکومت کی جانب سے ہانگ کانگ میں 2017 میں ہونے والے انتخاب کے امیدواروں کی چھان بین کے مبینہ فیصلے کے خلاف یہ احتجاج شروع ہوا تھا پیر اور منگل کی درمیانی شب بھی دسیوں ہزاروں پرامن مظاہرین شہر کی مرکزی اور اہم شاہراہوں پر دھرنا دیے بیٹھے رہے۔
ہانگ کانگ میں حکام نے اس احتجاج کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے تاہم پیر کو پولیس کی طرف سے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے استعمال اور لاٹھی چارج کے بعد مظاہرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہانگ کانگ کی حکومت نے مظاہرین پر زور دیا ہے کہ وہ خاموشی سے اور پرامن طریقے سے چلے جائیں لیکن مظاہرین سرکاری عمارات کے کمپلیکس کے باہر خیمہ زن ہیں۔
اس وقت ہانگ کانگ میں مظاہرین نے شہر کے تین اہم علاقوں میں سڑکیں بند کر رکھی ہیں۔ ان علاقوں میں سکول بند کر دیے گئے ہیں اور ٹرانسپورٹ کا نظام معطل ہے۔ وہاں واقع کچھ بینکوں نے بھی اپنی شاخیں بند کر دی ہیں منگل کو مظاہرین کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی ہے لیکن بدھ کو چین میں قومی دن کی عام تعطیل کے موقع پر ایک مرتبہ پھر اس تعداد میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
چین نے دوسرے ممالک کو ان ’غیر قانونی‘ مظاہروں کی حمایت کے بارے میں خبردار کیا ہے جبکہ اس نے ملک میں ان مظاہروں کی رپورٹنگ کو سنسر کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ ادھر امریکی صدر کے دفتر کے ایک ترجمان نے ہانگ کانگ کے حکام سے ’تحمل کا مظاہرہ کرنے‘ اور مظاہرین سے ’پرامن انداز میں اپنا موقف بیان کرنے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
مظاہرین جن میں طلبا اور اوکیوپائی سینٹرل گروپ کے اراکین شامل ہیں، چاہتے ہیں کہ چین ہانگ کانگ کے عوام کو اپنے قائدین کے انتخاب کی مکمل آزادی دے اور چینی حکومت سنہ 2017 میں چیف ایگزیکٹیو کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخاب کے امیدواروں کی چھان بین کا منصوبہ ترک کر دے۔ ابھی تک ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو بیجنگ نواز کمیٹی کی جانب سے منتخب کردہ رہنماؤں میں سے ہی چنے جاتے ہیں۔