عید الاضحی جیسے عید قرباں بھی کہا جاتا ہے اللہ اور اس کو بندوں کو راضی کرنے کاایک اہم ذریعہ ہے اس سے جہاں ایک طرف اللہ عزوجل کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے وہیں غریب ومسکین لوگ بھی گوشت جیسی نعمت تناول کرکے خوشی ومسرت میں سرشاررہتے ہیںاورقربانی کرنے والے کے لیے دل سے دعائیںدیتے ہیں۔ اللہ کابے پناہ فضل ہے کہ ا س نے امت مسلمہ کوعیدالاضحی جیسا تیوہار عطا فرمایا جس میں امیروغریب سب ایک ساتھ ا س کی مسرتوں میں مست رہتے ہیںمگراس کے ساتھ ساتھ ایک بہت دل خراش منظربھی ہمارے نگاہوں کے سامنے ہوتاہے
جس سے پتہ چلتاہے کہ رسوم وروایات کی بندشوں سے ہم اب تک آزادن ہیں ہوسکے ہیں شاید یہی وجہ ہے اس کے پیغامات اور اس کی برکتوں کے ا ثرات سے ہماری عملی زندگیاںخالی ہیں۔الاماشاء اللہ۔عیدالاضحی کے پیغامات ،تقاضوں اورمطالبات کو مدنظر رکھیں اور اپنے اندرو ن کا جائزہ لیں۔ خواص سے لے کر عوام تک ہر ایک اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے عمل ،اپنی اپنی نیتوں اور اپنے اپنے رویوں پر تنقیدی نگاہ ڈالے اور انصاف سے بتائے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطی ہورہی ہے ۔ کیاہم سے عیدالاضحی کے تقاضے پورے ہورہے ہیں؟کیاہم اس موقع پراپنی قربانیو ںسے ضرور ت مندوںکی کفالت کرپارہے ہیں؟ہمارے یہاں بدقسمتی سے ریاکاری، نمائش، نفسانیت اور سطحی جذبۂ مسابقت اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ الامان والحفیظ۔ قربانی کے نام پراپنی دولت کا مظاہرہ کرنے اور دوسروں کو نیچا دکھا نے کے لیے وہ سب کیا جارہا ہے کہ انہیں دیکھ کر ایک دل درمند خون کے آنسو روتا ہے ۔
میں آج خاص طورسے عوام سے نہیں خواص سے مخاطب ہوں۔عوام میں توکسی قدراللہ کاخوف باقی ہے مگراب ایسا لگتاہے کہ خوا ص کی صفوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر حضرات کے دل خوف خدا سے خالی ہوچکے ہیں۔عید الاضحی کے موقع پر چندہ خور(ضمیرفروش) مولویوں ، فرضی مدرسوں اورجعلی یتیم خانوں کے ذمے داران حشرات الارض کی طرح اپنے بلوں سے نکل پڑتے ہیں اورقربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے نگرنگر،ڈگرڈگراورقریہ قریہ کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔خاص طورپرممبئی میں تومسلم علاقو ں میں دودوقدم کے فاصلے پر مدرسو ں ، انجمنوں ،یتیم خانوں اورفلاحی اداروں کے ذمے داران میز،کرسی اوربینرلگاکر بیٹھ جاتے ہیں۔
یہ مناظردیکھ کرکسی کوکچھ نہ ہو تونہ ہو مجھے ضرورکوفت ہوتی ہے۔معلوم نہیں چرم قربانی سے حاصل کیاگیاپیسہ کہاں اور کس مصرف میں خرچ ہوتاہے۔میں یہاں یہ واضح کردوں کہ میرا روئے سخن صرف ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے دین کو دنیا کمانے کاپیشہ بنا لیا ہے اورجواسلام اورمسلمانوں کی بدنامی کاسبب بن رہے ہیں۔ہر سال اربوں روپے کی کھال فروخت ہوتی ہے ۔صرف ممبئی شہر میں ہر سال کروڑوں روپیوں کی کھالیں فروخت ہوجاتی ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ جس قوم میں ہر سال اربوں روپیوں کی زکوٰة نکلتی ہو اور عیدا لاضحی کے موقع پر کروڑوں روپیوں کی کھالیں فروخت ہوجاتی ہوں ایسی صورت میں ہوناتویہ چاہیے کہ قوم مسلم میں کوئی بھی شخص بھوکانہ رہے اورکوئی غربت کے دلدل میں نہ پھنسے مگر حیرت ہے کہ قوم کی حالت جوں کی توں ہے بلکہ بدسے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کروڑوں اربوں روپیہ کہاں چلاجاتاہے؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ غریبوں کے ہی نام پر یہ کھالیں جمع کی جاتی ہیں مگر غریبوں کوہی نظرانداز کیاجاتاہے ۔لوگوں نے اپنی اپنی مذہبی دکانیں کھول رکھی ہیں اور اس دکان کو مزید ترقی دی جا رہی ہے۔ ایسے ماحول میں قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو کھالوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں اورانہیں صحیح حقدار تک پہنچانے میں حتی الوسع اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں۔
Muslims
ایک خاص بات عام مسلمانوں سے یہ عرض کرنی ہے کہ وہ اپنے قربانی کے جانوروں کی کھالیں یا ان کی قیمت اولاً تو خود اپنے ہاتھوں سے مستحقین تک پہنچائیں اوراپنے قریبی مستحقین کوہی دیں ۔ بصورت دیگر قابل اعتماد اور شناسا حضرات جو مدارس یا فلاحی اوررفاہی ادارے چلاتے ہیں، انہیں دیں تاکہ یہ کھالیں صحیح مصرف میں استعمال ہوسکیں۔ اس معاملے میں بالکل بھی غیر ذمے داری اور کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ایسانہ ہو کہ جو بھی سامنے آیا اور اس نے اپنی چرب زبانی سے دین و ملت کی حالت زارکاخطبہ پڑھا،امت مسلمہ کی پسماندگی پر گھڑیالی آنسو بہائے اورآ پ بے چوںوچراں بغیرتصدیق کیے ہوئے قربانی کی کھالیںا س کے حوالے کردیں۔ اس ضمن میں بڑی جرأت و ہمت سے یہ بھی عرض کر دوں کہ مولویانہ لباس، چہرے پر داڑھی،سر پر ٹوپی اور قوم وملت کی حالت زارکا مرثیہ پڑھنے والوں پر مکمل اعتماد نہ کریں بلکہ چھان پھٹک کرکے ایسے اداروں کا انتخاب کریں جن پر آپ کومکمل یقین واعتماد ہو ۔بے چارے عام مسلمان مولویانہ لباس والوں پر اعتماد کر لیتے ہیں مگر بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ان کو دیا گیا پیسہ یا کھالیں قوم کے غم کانہیں ان کے غم کا مداوا کرتی ہیں۔
مولوی نمالوگ اس طرح کی قابل مذمت حرکت سے نہ صرف یہ کہ غریبوں اور مستحق اداروں کاحق ماررہے ہیںبلکہ اپنی آخرت بھی خراب کررہے ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات یادرکھی جائے کہ اگر آپ نے کھالیں بلا تحقیق قصداًایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیں جنہوں نے ا ن کا صحیح استعمال نہیں کیا تو اس کے ذمے دار آپ بھی ہوں گے لہذا یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ اگر آپ نے قربانی کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرکے ان کے پیٹ کی آگ سرد کی ہے تو دوسری طرف ان کی دیگر ضروررتوں کی تکمیل بھی جانوروں کی کھالوں اوریاان کی قیمت سے کیجیے۔
بعض امیر مسلمانوں کی یہ ذہنیت ہے کہ گزشتہ برسوں سے جس مدرسے یا جس فلاحی ادارے یا جس غریب آدمی کو قربانی کی کھالیں دیتے آرہے ہیں وہ ہر سال انہیں کو دیتے ہیں ۔صرف اس وجہ سے کہ وہ ان کے پیر صاحب کاا دارہ ہے یا ان کے والد صاحب کی خواہش ہے یا ان کے دوست واحباب کا تقاضا ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جنہیں ہم کھالیں دے رہے ہیں وہ ان کا صحیح استعمال کربھی رہے ہیں کہ نہیں۔ حالانکہ ان کے سامنے دوسرے ضرورت مند ادارے اورضرورت مندلوگ ہوتے ہیںمگریہ انہیں نظراندازکردیتے ہیں ۔ا س نقطۂ نظرکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ایسی صورت میں مذکورہ بالا حضرات کی قربانیوں کی کھالیں بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوتی ہوں گی یا نہیں یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔اگر مسلمان اس معاملے میں سنجیدہ ہوگئے اور تحقیق وتفتیش کرکے چرم قربانی مستحق لوگوں کو ہی دینے لگے تو ان شاء اللہ فرضی رسیدکاٹنے والوں، کھالوں کی بھیک مانگ قوم کاپیٹ نہیں اپنا پیٹ بھرنے والوں، ضمیر فروش چندہ خور مولویوں اور جعلی مدرسوں کا جو طوفان ہر سال عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر مسلمانوں کے سروں پر منڈلانے لگتا ہے
وہ یقینا چھٹ جائے گا۔یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ان ننگ دین اورننگ قوم قسم کے لوگوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ جو دین کی آڑ میں غریبوں کا حق مار رہے ہیں ان سے نجات مل سکے۔بہت سے ادارے اپنے مستحق ہونے کادعوی کرتے ہیں اورغریب اپنادکھڑاسناتے ہیں اس کی وجہ سے عام مسلمان بڑی کشمکش کا شکارہوجاتے ہیں کہ وہ چرم قربانی کسے دیں اورکسے نہ دیں ۔ اس سلسلے میں یہ دیکھیں کہ کون ان میں سے زیادہ حقدارہے اورکون سا ادارہ صحیح سمت میں اپنے فرائض انجام دے رہاہے ۔ ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ دو نو ں چیزیں (گوشت اورچرم قربانی)سب سے پہلے اپنے نزدیکی لوگوں یعنی نزدیکی مستحقین کو دی جائیں توبہت بہترہے اس کے بعدہی دوسروں کی طرف نظر کی جائے۔ بیرونی ”مستحقین ”سے زیادہ اپنے گھراوراپنے شہرکے مستحقین کاخیال رکھناچاہیے کہ ان بیرونی ”مستحقین ”کی وجہ سے بے چارے گھرکے مستحقین کاحق مارا جاتاہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ بیدار ہو اور جھوٹے دعویداروں، دین کے نام پر ٹھگی کرنے والوں، یتیموں ،بیواوئں، مفلسوں اورغریبوں کے نام پر کھالیں اور چندہ جمع کرنے والوں پر سختی سے نگاہ رکھی جائے تاکہ صحیح مستحقین کو ان کا حق مل سکے اور عیدالاضحی کے حقیقی تقاضے پورے ہوسکیں۔