قالین پر لیٹی وہ تیز تیز سانسیں لے رہی تھی اور منہ میں مسلسل کچھ بڑبڑا رہی تھی جیسے کوئی اہم بات بتانا چاہ رہی ہو،بدن پر پرانے کپڑے، سانولی رنگت، جھریوں سے بھرپور چہرہ، سفید بال جن میں کہیں کہیں مہندی کے آثار موجود تھے جیسے کافی مہینے پہلے سفید بالوں کو مہندی سے رنگنے کی کوشش کی ہو ، کانوں میں بڑے بڑے بالے جن کے وزن کی وجہ سے کانوں کے سوراخ لٹک گئے تھے اب اپنا ادھیڑ عمر وجود لیے نیم بیہوشی کی حالت میں زمین پر ڈھیر تھی ،ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہو، نیم بیہوشی کی حالت میں وہ مسلسل ایک ہی بات دہرا رہی تھی اسے آزاد کرادو، اسے رہائی دلادو اور طبیعت تھی کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔
اس ادھیڑ عمر خاتون کا نام شریفاں تھا جسے ہم ماسی شریفاں کے نام سے بلاتے تھے ،وہ ہمارے گھر کوئی پچھلے بیس سال سے کام کررہی تھیں ،جھاڑ پونجھ، صفائی سب ان کے ذمہ تھا،ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب وہ ہمارے گھر کام کرنے آنے لگیں اور اب ان کی حیثیت ہمارے گھر کے ایک فرد جیسی تھی ،وہ صبح سویرے آجاتیں ہمارے ساتھ ناشتہ کر تیں اور پھر کام کاج میں لگ جاتیں،کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے دکھ سکھ کرتیں ،کھانا کھاتیں اور اپنے گھر چلی جاتیں ۔
ایک دن وہ صبح کام کرنے آئیں توآتے ہی رونے لگ گئیں اور بتایا کہ ان کے بیٹے نے انہیں پیسے نہ دینے پر گھر میں مار پیٹ کی ہے ،اور پھر یہ معمول بن گیا آئے روز ماسی شریفاں آتیں اور اپنے بیٹے کے ظلم کی داستان سناتیں،ماسی شریفاں کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جسے انہوں نے بہت لاڈ پیار سے پالا تھا ، شوہر کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیاتھااور انہوں نے محنت مزدوری کر کے بیٹے کو میٹرک تک تعلیم دلوائی ، مگر وقت اور حالات ہمیشہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے یہا ں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، نوکری نہ ملنے اور بری صحبت نے ان کے اکلوتے بیٹے کونشے کا عادی بنا دیا
شروع شروع میں اس نے گھر سے پیسے چرانے شروع کیے ، پھر گھر کی چیزیں بیچنا شروع کیں، ایک دن تو حد ہوگئی جب ماسی نے آکر بتایا کہ وہ پہننے والے کپڑے بھی اٹھا کر کباڑیے کو بیچ آیا ہے ،بڑھتے بڑھتے وہ اس حد تک جا پہنچا کہ اب گھر میں اسے راشن حتیٰ کہ آٹا، دال ، چاول جو بھی نظر آتا اٹھا کر بیچ آتا اور اس پیسے سے نشہ پورا کرتا،جب کچھ نظر نہ آتا توپیسے مانگتا اور اگرماسی اسے پیسے نہ دیتی تو وہ مار پیٹ کرتا۔ تنگ آکر ماسی اسے گھر میں بند کرکے تالا لگاکر آتی تا کہ کہیں وہ گھر کا بچا کھچا سامان نہ بیچ دے ،مگر یہ زیادہ دن نہ چل سکا اور ایک دن جب ماسی شریفاں کے بیٹے نے مارپیٹ کی حد کردی تو ماسی نے آکر کہا کہ کسی طرح اس کے نشئی بیٹے کو حوالات میں بند کرادیں تاکہ کچھ دن سکون کے گزر سکیں اور پھر اگلے ہی دن جھوٹا پرچہ کٹوایا ، پولیس آئی اور ماسی کے بیٹے کو پکڑ کر لے گئی اور ماسی شریفاں نے سکون کا سانس لیا
Police
مگر دو، چار دن کے بعد ہی ماسی کو اپنے بیٹے کی یاد ستانے لگی اور پھر وہ اسے رہا کروا لائی ، پھر تو جیسے یہ معمول بن گیا ماسی کا نشئی بیٹا مہینے میں ایک دو مرتبہ حوالات کی ہوا کھا آتااور ماسی کے کچھ دن سکون سے گزر جاتے ،مگر وہ ماں تھی اور اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر روز اسے یاد کرتی کہ پتہ نہیں اس نے کھانا بھی کھایا ہوگا یا نہیں، کہیں پولیس والوں نے اسے مارا تو نہیں ہوگا، کہیں اس پر ظلم نہ ہورہا ہو، آخر اداس ہو کر بیٹے سے ملنے حوالات چلی جاتی اور ضمانت کروا لاتی، پولیس والے بھی ماسی شریفاں کی عمر کا خیال کرتے ہوئے ان کی بات مان لیتے۔
ایک طرف بدبخت بیٹا تھا جو بات بات پر ماں پر ہاتھ اٹھا تا، نشے نے اس کے اندر سے شرم وحیا ، ماں کی محبت سب ختم کردی تھی، اور دوسری طرف دکھیاری ماں تھی جس نے ساری عمر لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بیٹے کو جیسے تیسے میٹرک کروایاتھا اسے ہمیشہ بیٹیوں پر فوقیت دی تھی ،بیٹے کے ہزار بدتمیزی کرنے پر بھی وہ بیٹے کو کسی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتی تھی ،یہی دکھ تکلیفیں برداشت کرتے آج وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی او ربار بار اپنے بیٹے کو حوالات سے رہائی دلانے کا کہہ رہی تھیں ،جیسے ہی ماسی شریفاں کی حالت کچھ سنبھلی انہیں ان کے گھر چھوڑکر آئے اور اگلے ہی دن اطلا ع آگئی کہ ماسی شریفاں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
بیٹے نے ماں کو بیشک ساری عمر دکھ دئیے تھے مگر ماں کی ممتا دیکھیں جو آخری لمحوں اور اتنی تکلیف میں بھی اپنے بیٹے کے لیے فکرمند تھی ، یہ سب سوچ کر بعض اوقات دل میں خیال آتا ہے کہ ا للہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ پیار کرتا ہے تو کیسے وہ ہمیں جنت سے محروم رکھے گا،مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقوق اللہ تو معاف کردے گا مگر حقو ق العباد تب تک معاف نہیں کر ے گا جب تک انسان خود اسے معاف نہیں کرے گا،ایک ماں کی محبت دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے امید مزید بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ہزاروں دریچے نظر آنے لگتے ہیں۔