لیاقت علی خان ۔۔۔ پاکستان کا پہلا وزیراعظم

Liaquat Ali Khan

Liaquat Ali Khan

تحریر: آصف لانگو

خان لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آ کسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1922 ء میں انگلینڈ بار میںشمو لیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آ ئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میںآ پ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے ۔ آ پ قائد اعظم محمد علی جنا ح کے دست راست تھے۔
ابتدائی زندگی : نواب زدہ لیاقت علی خان ، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے ۔ آ پ 1اکتوبر 1896 ء کو پیدا ہوئے ۔ آ پ کی والدہ محتر مہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لئے قران اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کر وایا ۔ 1918ء میں آ پ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا ۔ 1918ء میں آ پ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی ۔ شادی کے بعد آ پ بر طانیہ چلے گئے جہاں آ پ نے آ کسفورڈ یو نیورسٹی سے قانون کی
ڈگری حاصل کی۔

سیاسی زندگی: 1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آ پ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آ زاد کروانے کے لئے سیاست میںآ نے کا فیصلہ کیا ۔ آ پ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔1924ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا ، اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنا تھا اس اجلاس میں خان لیاقت علی خان نے بھر پور شرکی کی۔

1926ء میں آ پ اتر پردیس سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے آ پ یو بی اسمبلی کے رکن رہے ۔1932 ء میں آ پ نے دوسری شادی کی ۔آ پ کی دوسری بیگم رعنا خان لیاقت علی خان ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں ۔ آ پ خان لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں ۔

خان لیاقت علی خان 14اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے جو کہ 16اکتو بر 1951 تک وزیر اعظم تھے۔ قاتلانہ حملے : 16اکتوبر 1951 ء کی اس شام کمپنی باغ را ولپنڈی میں جلسہ عام کے بعد قتل ہوئے ۔خان لیاقت علی خان کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراََ بعدکمپنی باغ میں ہونے والے پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ اور آ ئی جی پولس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ ، آ ئی جی پولس قربان علی خان اور ڈی آ ئی جی ،سی آئی ڈی انور علی غائب تھے ۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائض منصبی پر مامور پولیس کا اعلیٰ ترین عہدے دار را ولپنڈی کا ایس پی نجف خان تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکر ٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں موجود تھے مگر جلسہ گاہ نہیں تھے ۔

گولی کی آ واز سنتے ہی ایس پی نجف خان نے پشتو میں چلا کر کہا تھا ” اسے مارو ” سوچنے کی بات ہے کہ نجف خان پنڈی ( پنجاب اور اردو یا پنجابی اسپیکنگ ایریا میں ) کے جلسے میں اردو یا پنجابی بولنے کے بجائے پشتو کیوں استعمال کی تھی ؟ کیا انھیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے ؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا ۔ کیا ضلعی سربراہ پولیس اضطراری حالت میں یاف رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سے زیان بو لتے ہیں ؟ کیا تجربہ کار پولیس آفسر نجف خان کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتا ر کرنا ضروری نہیں تھا ؟
جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں بلکہ پانچ گولیاں چلائیں ۔ اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار نے حاضرین جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قانو کر رکھا تھا ۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ؟

خان لیاقت علی خان کے صاحب زادے اکبر لیاقت کا کہا تھا کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنا یا گیا ، اصل قاتل کو ئی اور تھا ، وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ خان لیاقت علی خان کو گولی سامنے سے نہیں بلکہ عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ مین مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے ۔ اس کے جسم پر بھالوں کے زخم تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آ س پاس بہت مسلح افراد موجود تھے کس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ نجف خان کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائر نگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افر تفری پھیل گئی اور زخمی وزیر اعظم کی طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ۔ اس ہوا ئی فائرنگ کا مقصد تاحال واضع نہیں ہوسکا ہے ۔

ایس پی نجف خاں نے انکو ئری کمیشن کو بتا یا کہ انہوں نے اپنے ما تحتوں کو ہوائی فائرنگ کاحکم نہیں دیا تھا بلکہ ایس پی نے اپنے ما تحتوں سے جواب طلبی کر لی ۔ انکو ائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والاحکم 29اکتوبر کا تھا تاہم عدالت نے رائے دہ کی ریکارڈ میں تحریف کی کی گئی تھی ۔ اصل تاریخ 20نومبر کوبدل کر 29اکتوبر بنا یا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خان ایس پی نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20نومبر کو کیا ۔
سرکاری کاغذات میں ردو بدل ایس پی نجف خان کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ ورانہ بد دیانتی کی پختہ ثبوت تھا ۔

Court

Court

انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خان نے ایک ذمہ دار پولیس آ فست کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوئی لیکن انہیں باا عزت بحال کر دیا گیا ۔ وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لئے طبی امدا د بھی نہیں تھا حتیٰ کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے کے لئے ایمبو لنس تک موجود نہیں تھی۔ چاروں اطراف اندھا دھن گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڑ میں سید اکبر کوختم کرنے میں مصروف تھے کچھ لوگ ایک وزنی آ رائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ۔ اس افرا تفری پر حملے کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔ سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی ۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراََ بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبے بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں ۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔

خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی میں ہی تھے لیکن ان دونوں اہم رہنماؤں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح کے لئے جمع ہو گئے ۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اُس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم خان لیاقت علی خان زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لا یا جا رہا تھا ۔ وزیر اعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کی جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے رز کراشی میں تدفین تک منظر ِ عام پر نہیں آ ئے ۔ اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والو ں نے تین اہم کردار کی راولپنڈی سے بیک وقت دوری کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے ۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن ہسپتال میں تھے اور سیکر ٹری خارجہاکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکا مات کے منتظر تھے ۔

قتل کی تفتیش : غلام نبی پٹھان ( تک جوائنٹ سیکر ٹری مسلم لیگ) کے مطابق خان لیاقت علی خان کے قتل کی نہ تو ایف آ ئی آ ر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی ہے، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلا یا گیا ۔ جسٹس منیر اور جسٹس اختر پر مشتمل ایک جو ڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکو ائری کا مقصد خان لیاقت علی خان کے قا تلوں کا تعین کرنے کے بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا ۔ قتل کس نے کی ہے ؟ کیو ں کی ہے ؟ کس نے کروائی ہے ؟ ان سوالات سامنے لانے کے بجائے انتظامی غفلت کو ہی ذمہ دار قرار دیا اور ان کا جائز ہ لیا گیا تھا ۔ بیگم خان لیاقت علی خان کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی، اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کے بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں ہی مصروف تھے ۔

درحقیقت انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت بڑی حد تک بے معنی تھے ۔ مثال کے طور پر : الف) ہم بیا ن کردہ واقعات کے بنا پر کوئی نتیجہ اخز نہیں کر سکتے ، معاملہ زیر ِ تفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔ ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکو متوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے ۔ ہم نے اس سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے ۔
ج) سید اکبر کاکسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا ہ۔ بحر حال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔

د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم یاسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیابا ہو جاتے ، سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ، اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈلنا تھا۔

اے لیاقت ! ملکِ پاکستان کا تو غم خوا ر تھا
بعد ِ قائد ، قوم کا تو قا فلہ سالار تھا
قوم نے تجھ کو خطاب ِ قائد ملت دیا
تو نے مُکے سے پیام ِ جراء ت و ہمت دیا
اے لیا قت ! جذ بہ ء حُب وطن کے ہم امیں
یہ حقیقت ہے ، تجھے ہر گز بھُل ا سکتے نہیں
اے شہد ِ قوم ! تو رہبر تھا بے شک خوز خصال
وقت آ خر بھی تجھے اپنے وطن کا خیا ل تھا
قائد اعظم کے پہلوں میں بنا تیر ا مزار
آج بھی شہر ِ کراچی میں ہے تیری یا د گار
تو رفیق ِ قائد اعظم ، سد ا اُ ن کے قریب
اُن سے قربت کا تری کیسا اشارہ ہے عجیب
قائد اعظم کی رحلت یا شہادت ہو تری
سال میں دونوں کادن ہوتا سدا ہے ایک ہی
گلشن ِ حُبِ وطن میں پھول کرتا ہے دعا ہے
تا قیامت دیس کا تیرے محافظ ہو خدا

Liaquat Ali Khan

Liaquat Ali Khan

کہتے ہیں کہ خان لیاقت علی خان نے مکا دکھا ہندوستان کو ڈرا دیا تھا۔ قوم ان کے ساتھ تھی حالانکہ بے سرو سامانی کا عالم بھی تھا ۔ آج بھی خان لیاقت علی خان کی زندگی کو نمونہ بنا ئیں یقینا سیاست دان ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تحمل ، بردباری اور قوت برداشت ہی سیاست کا دوسران نا م ہے ۔ اختلاف ِ رائے ضرورہو لیکن ذاتی رنجشیں ، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیاب نہ ہوں ۔ملک ِ پاکستان ہے تو سیاست داں ،حاکم اور فوجی جرنیل و افسر سب ہونگے ۔ مزید کہا جاتا ہے کہ خان لیاقت علی خان جب شہد ہو ئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بنک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خان لیاقت علی خان کے تعلقات: قائد اعظم کو خان لیاقت علی خان پر بڑا اعتماد تھا ۔ 6دسمبر1943ء کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ خان لیاقت علی خان دو بارہ جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ قائد اعظم نے آ پ کو اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔ 1945ء میں بھولا بھائی ڈیسائی کی نواب زادہ خان لیاقت علی خان سے کانگریس مسلم لیگ اتحاد پر بات چیت ہوئی جس کا چرچہ اخبارات میں بے حد ہوا ۔ اخبارات میں اس کا ذکر لیاقت ڈیسائی مذا کرات کے نام سے ہوتا رہا ۔ نواب زادہ خان لیاقت علی خان صاحب نے 8فروری 1945ء اس کے متعلق اخبارات میں یہ بیان دیا کہ قائد اعظم نے مشورے کے بغیر جو انھوں نے ابھی تک نہیں کیا کوئی معاہدہ مسٹر ڈیسائی کے ساتھ پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

اگرچہ واسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مسٹر این بی کھارے کے ساتھ بھی اسکا ذکر شاید مارچ 1944ء میں امبلی میں چھیڑا جس کی نواب زادہ خان لیاقت علی خان نے نہایت زور کے ساتھ تردید کی۔ لیکن بھر بھی وائسرائے نے اسیکر یٹر ی آ ف اسٹیٹ برائے ہندوستان کو یہ تجویز دی کہ ڈیسائی پلان ہندوستان کے مسئلے کی راہ ہموار کرنے میں معاون ہو سکتا ہے ۔ وائسرائے نے بوجودہ ڈیسائی کے اصرار پر سر جان کول کو قائد اعظم کے پاس بھیجا جو اس وقت بمبئی میں تھے ۔ قائد اعظم نے اس قسم کے کسی بھی معاہدے کے وجودتردید کی تھی۔

خان لیاقت علی خان کی کفایت شعاری کے حوالے سے یوسف ہارون جو سندھ کو وزیر اعلی تھا نے لکھا ہے ” خان لیاقت علی خان کی اپنی ماہانہ تنخواہ میں گزارہ مشکل سے ہوتا تھا ۔ انھوں نے خود ہی اپنی تنخواہ بہت کم مقرر کروائی تھی ۔ قرض کے بار سے بچنے کے لئے وہ اپنے بچوں کو معمولی اسکول میں تعلیم دلواتے تھے ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ خوش پوش انسان تھے لیکن اُ ن کے پاس قیمتی کپڑے بہت کم تھے ، کراچی میں حمید برادرز ہی اُ ن کے درزی تھے وہ اس بات کی شاہد ہیں کہ انھوں قیام پاکستان کے ساڑھے چار برس میں مشکل سے تین یا چار سُوٹ سلو ائے تھے ، وہ اپنے پرانے سوٹ ہی درست کروات رہتے تھے ، 1940ء کے بعد اُن کا جسم بہت بھارہ ہو گیا تھا اور پہلے کے کپڑے تنگ ہو گئے تھے ، وہ اِن تنگ کپڑوں کو پھینکنے کے بجائے بڑے کرواتے اور پہنتے رہتے تھے ۔ گھر پر وہ نہایت سادہ کپڑے پہنے رہتے تھے

میں نے ایک مرتبہ اُ ن کو ایک قمیض پہنے دیکھا جس کی آ ستین میں کئی پیوند لگے تھے ۔دراصل آستین کا کپڑا نکال کر اُس کا کالر بنا یا گیا تھا” ۔ یوسف ہارون کے ہی مطابق ( جب یوسف ہارون سندھ کے وزیر اعلیٰ ) بنے تو خان لیاقت علی خان نے انھیں جو ہدایت نامہ دیا وہ آج بھی قابل غور ہے ” تمھیں اپنے زمانہ اقتدار میں بہت سے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے گا جو تم سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ۔ اس موقعے پر تم انصاف کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا اور ملک کا نقصان کر کے کسی کا ذاتی فائدہ ہر گز نہ کرنا ۔ ہاں اگر انصاف کاخون کیے بغیر تم کسی کا فائدہ کر سکتے ہو تو مضائقہ نہیں لیکن اپنے ضمیر اور خدا کے رو برو سچے رہنا، تمھیں اختیارات ملے ہیں تو خوف ِ خدا کو ہمیشہ اپنا رہبر بنانا اور قانون کی را میں روڑے مت اٹکانا۔”

خان لیاقت علی خان نے ایک بار کہا تھا میرے ” میرے پاس نہ دولت ہے نہ جائیداد میں اسی میں خوش ہوں کیونکہ یہی چیزیںانسان کے ایمان مین خلل ڈالتی ہیں ۔صرف ایک جان میرے پاس ہے اور وہ بھی چار برس سے پاکستان کے لئے وقف ہے ۔اب میں آ پکو اس محبت اور عقیدت کے بدلے کیا دے سکتا ہوں جو آ پ مجھ سے کرتے ہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کے لئے پاکستان کی بقاء کے لیے قوم کوخون بہانا پڑتا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہوگا۔” اور پھر آ خر کا ر 16اکتو بر 1951ء کو عہدہ وزارت عظمیٰ پاکستان کی حیثیت سے راولپنڈی کے کمپنی باغ میں یہ خون بھی بہہ گیا ۔ آ خری وقت میں اُن کی زبان پر یہ الفاظ تھے ” خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔”

Asif Lingo

Asif Lingo

تحریر: آصف لانگو