اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ سیاچن کے مسئلے پر پاکستان بھارت کے درمیان 13 مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں مگر ان پر پیش رفت نہ ہوسکی جب کہ دونوں ممالک کی قیادت نے اس معاملے پر 3 مرتبہ معاہدہ کیا یا پھر اس کے قریب پہنچ گئیں لیکن بھارتی فوج نے اسے ماننے سے انکار کردیا لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے بھارت کو اپنا دل و دماغ بڑا کرنا پڑے گا۔
سیاچن کے دورے سے واپسی کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ سیاچن کا معاملہ 30 برس پرانا ہے اس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، بھارت وہاں برف کو کیمیائی مادوں سے کاٹ رہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے،دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر خدمات دینے والے فوجی جوانوں کی مراعات کم ہیں، وزیر اعظم کو خط لکھا جائے گا کہ ان فوجی جوانوں کی مراعات میں اضافہ کیا جائے۔
مشہاد حسین سید نے کہا کہ سیاچین گلیشئر کا معاملہ ایسا ہے کہ دو گنجے ایک کنگھی کے لئے لڑ رہے ہوں، دونوں ممالک قومی سلامتی کے بجائے سیاچن کو انسانی سلامتی کا مسئلہ سمجھ کراپنی افواج پیچھے ہٹائیں اور دنیا کے سب سے بڑے گلیشئر کو امن پارک بنا دیا جائے، ماحولیات کے لئے ہم بھارت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے درمیان 13 مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں مگر ان پر پیش رفت نہ ہوسکی، دونوں ممالک کی قیادت نے اس معاملے پر 3 مرتبہ معاہدہ کیا یا پھر اس کے قریب پہنچ گئیں لیکن بھارتی فوج نے اسے ماننے سے انکار کردیا، اس مسئلے کے حل کے لئے بھارت کو اپنا دل و دماغ بڑا کرنا پڑے گا کیونکہ یہاں تمام فیصلے بیوروکریٹس کو نہیں سیاسی لیڈر شپ کو کرنا ہوں گے۔
چیرمین سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت ساڑھے 5 وزیر خارجہ ہیں، چوہدری نثار بھی امور خارجہ پر جز وقتی بات چیت کرلیتے ہیں۔ خارجہ پالیسی اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک ایک مستند وزیر خارجہ نہ ہو۔ 21 ویں صدی جنوبی ایشاکی صدی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے مسئلے پر خاکی اور مفتی ایک ہیں، جب چین افغانستان ، ایران ، سعودی عرب، نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ بات چیت کی جاسکتی ہے تو بھارت کے ساتھ ان اہم ایشوز پر بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔