امسال حج اکبر ہو گا جو کہ 3 اکتوبر جمعة المبارک(آج) ہے۔حج کے لغوی معنی قصد کرنے ،گرد گھومنے، بار بار لوٹ کر آنے کے ہیں ۔حج کے ایام ہر سال آتے ہیں اس لیے اسے حج کہا جاتا ہے اور حجاجِ کرام دنیا کے گوشے گوشے سے جوق در جوق ،،مختلف راستوں سے اور مختلف اطراف سے مکہ مکرمہ (کعبة اللہ ) کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں ۔حج کے مقدس اور با وقار موقعے پر دنیا بھر سے 34 لاکھ سے زائد مسلمانانِ عالم اسلام کا عظیم اجتماع پوری دنیا کا سب سے بڑا اجتماع دنیا کے کسی بھی ایک مقام پرصرف حج کا ہی ہوتا ہے۔
آپ ۖ نے اپنی زندگی میں صرف ایک حج کیا اور ہرصاحب حثیت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جو اللہ کے لئے حج کرے اور حج کے دوران فحش (عورت سے ہمبستری اور اسکے متعلقات) اور نافرمانی نہ کرے ۔تو وہ حج سے (گناہوں سے پاک ہو کر)اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اسے ماں نے جنم دیا تھا ۔ایک حدیث میں ہے حاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جس کے لئے حاجی استغفار کرے اس کی بھی۔ ایک اور حدیث میں ہے حاجی 400افراد کی شفاعت کرے گا۔۔
حج کے فرض ہونے کیلئے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔١۔مسلمان ہونا ،٢۔اگر کفار کے ملک میں ہو تو حج کے فرض ہونے کا علم ہونا ،٣۔ عقلمند ہونا یعنی پاگل نہ ہونا ،٤۔ بالغ ہونا ،٥۔آزاد ہونا ،٦۔تندرست ہونا کہ اعضاء سلامت ہوں لیکن اگر پہلے تندرست تھا اور دیگر شرائط فرضیت حج پائے جانے کے بعد اپاہج ہو گیا تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے حج کرانا ضروری ہے اور اسے حج بدل کہا جاتا ہے ،٧۔مکہ مکرمہ پہنچنے کی طاقت کا ہونا اور اس سے مراد یہ ہے کہ حاجت اصلیہ مثلاً رہائش کا مکان ،سواری ،استعمال کے کپڑے ،برتن و بستر اور اوزار وغیرہا کے علاوہ اس کے پاس سوار ہو کر سفر کے اخراجات و دیگر ضروریات خوردو نوش و رہائش کے علاوہ اپنی واپسی تک اپنے اہل و عیال جن کا خرچ اس کے ذمے ہے موجود ہو ،٨۔ان شرائط بالا کا حج کے مہینوں شوال، ذیقعد اور ذوالحج میں موجود ہونا۔
: حج میں پانچ فرض ہیں ۔1۔نیت حج یعنی دل میں حج کا ارادہ کرنا ۔2۔ احرام۔3۔وقوف عرفات یعنی عرفات میدان میں 9ذوالحج کو دوپہر کے بعد کچھ وقت ٹھہرنا وقوف عرفہ اگر دن کو نہ کر سکے تو آئندہ رات کو صبح صادق سے پہلے تک یہ فرض ادا کیا جا سکتا ہے ۔4۔ طواف زیارت ۔5۔ان افعال میں ترتیب ۔ان فرائض میں سے ایک کے رہ جانے سے بھی حج نہیں ہوتا ۔ہمارے آقا نبی کریم ۖ جب عہدہ رسالت پر فائز ہوئے تو اس سے قبل قبلہ بیت المقدس تھا۔ جبکہ حضور ۖ بھی نماز اس کی طرف ر خ مبارک کر کے ادا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد قبلہ بیت المقدس ہی رہا ۔ 2 ہجری کو حضرت جبرائیل وحی لے کرآ ئے(مفہوم)۔ اے حبیب ۖ ہم آپ کے چہرے کی گردش آسمان کی طرف دیکھتے ہیں پس ہم آپ کا روئے مبارک اس قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں۔ جس کو (اللہ )نے پسند فرمایا ہے پس اب مسجد حرام کی طرف منہ پھیر لیجئے اور آپ جہاں بھی ہوں اپنا منہ اس طرف کر کے نماز ادا کیا کریں (القرآن)۔
اس روز حضورۖ کی دعا سے مسجد حرام ہمیشہ کیلئے تمام مسلمانوں کا کعبہ بن گئی اور تما م مسلمان ایام حج میں اس جگہ جمع ہو کر فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔ مقدس مہینے ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا ہواسمندرمیدان عرفات میں اپنے خالق و مالک کے ہاں سر بسجود ہو کر فریضہ حج ادا کرتا ہے۔ حج کے موقع پر ساری دنیا کے مسلمان ایک جگہ اکھٹے ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں گو یا کہ ہر سال عرب کی سر زمین میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو جاتی ہے(حج کا سب سے اہم یہ بھی مقصد تھا مگر ہم دیکھتے ہیں اس پر اب عمل نہیں کیا جا رہا آپ ۖ کے زمانے اور اس کے بعد صحابہ کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے کاش آج پھر اس پر عمل شروع ہو جائے آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے )۔ حج کی ادائیگی سے دل میں نرمی ،اخلاق میں پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور با برکت مقامات کی زیارت سے اللہ والوں کی محبت بڑھتی ہے۔
Allah
اللہ کے گھر کی زیارت کرنے کا دوسرا نام حج ہے۔ بیت اللہ شریف کا یہ طریقہ امن و سلامتی محبت و مساوات کا ایک درس ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ پوری دنیا سے مسلمان گورے ،کالے بنا کسی رنگ و نسل ،زبان کی تفریق کے ایک جگہ ہر اللہ کی خوشنودی کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔حج کا اصل مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ان میں بھائی چارہ کو مضبوط کرنا ہے۔
حج مبارک اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے ۔موجودہ دور میں نفرت ، تعصب ،انتشار ،ظلم و ستم کا دور دورہ ہے ، آج کل نفرت محبت سے زیادہ طاقت ور ہو رہی ہے رنگ ،نسل ،زبان اور گروہی مفادات نے مسلمانوں کو تقسیم کر رکھا ہے اس میں اپنے پرائے سب شامل ہیں ۔ ایسے دور میں حج امن و سلامتی محبت و مساوات کا ایک درس ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ پوری دینا سے مسلمان گورے ،کالے بناں کسی رنگ و نسل ،زبان کی تخصیص کے ایک جگہ اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔حج کا اصل مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ان میں بھائی چارہ کو مضبوط کرنا ہے ۔حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں ، سعی کرتے ہیںاور سب کی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے ۔ایک جیسے لباس میں امیر و غریب ، حاکم و محکوم اور آقاو غلام کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔سب ہی ایک اللہ کے بندے بن جاتے ہیں ۔اس کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لئے شرک کا درجہ رکھتی ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ہم نے لکھاکہ حج سے محبت حقیقی اور محبت مجازی کی محبت کا درس ملتا ہے اللہ سبحان تعالی کی خوشنودی کے لیے اللہ کے بندوں سے محبت ، عالمی بھائی چارہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس رشتے کو تقویت ملتی ہے ،مساوات اسلام میں سب برابر ہیں اس میں گورے کو کالے پر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ،پابندی وقت ایک ایسی انسانی خوبی ہے جس پر زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا بھی دارومدار ہوتا ہے حج میں ہم ہر کام کو اس کے وقت پر کرنا سیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،حج سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ایک حقیقی مسلمان کیسا ہوتا ہے اس کی تربیت ہوتی ہے۔ اللہ سبحان و تعالی ٔ ہمیں حج کرنے اسے سمجھنے اور اس سے جو کچھ سیکھ کر آئیں اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی توفیق دے۔