بحث زوروں پر تھی ہرکوئی اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے حق میں دلائل دے رہا تھا کچھ نیا شوشہ چھوڑ کر تماشا دیکھتا: اس سے محظوظ ہوتا پھر کوئی نئی پھلجھڑی چھوڑ دیتا جو جلتی پر تیل کا کام کر دیتی ایک صاحب نے تنگ آکر کہا چھوڑو۔۔ اب عمران خان کو سال ڈیڑھ سال بعد احتجاج کرنے کا خیال آیا ہے یہ کیا بات ہوئی؟ دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔اسلام آباد میں ہزاروں افرا دنے گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے دھرنا دے رکھا ہے شیخ رشید اور عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور چوہدری برادران سب کے سب حکومت کے خلاف۔۔۔کمال ہے بھئی۔۔۔
بس اب نواز حکومت گئی ایک جیالا حلق پھاڑ کر چیخا۔۔۔ چپ۔۔۔ایک بزرگ نے ڈانٹا ایسی یاتیں نہ کر زرداری ناراض ہو جائے گا یہ سنتے ہی جیالے کی ہنسی کو پریشر بریک لگ گئی۔۔۔ویسے شیخ رشید،عمران خان اورطاہرالقادری کے متحد ہونے سے حکو مت کو وخت پڑ گیاہے ایک نے رائے دی شیخ رشید اور عمران خان کے بارے میں کیا کہوں ایک موٹے سے سخص نے ہاتھ اٹھا کر،منہ پھلا کر کہ اشیخ الاسلام کے بارے میں مجھے یقین ہے وہ سیاسی دوکاندار ہے کسی ایک کا نام لو دبلاپتلا پاٹ دار آوازمیں ترت بولا ۔۔۔جو سیاسی دوکاندار نہیں۔۔۔اس کی آواز سن کر سب کوجیسے سانپ سونگھ گیا۔۔
ایسی چپ کہ سب خاموش حیرت سے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔یہ نظام ہی ایساہے کسی نے وقفے کے بعد خاموشی توڑتے ہوئے کہا میں نظام کی بات نہیں کررہا دبلا پتلا پھر گویاہوا ۔۔۔ہے کوئی سنگل پرسن۔۔ جس کے بارے میں آپ کا دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دو کاندار نہیں۔۔ شایدکسی کے پاس اس تلخ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔ بزرگ نے کہا طاہرالقادری کے پروگرام یاطریقہ ٔ کار سے اختلاف ہو سکتاہے لیکن اس کی باتیں دل میں ترازو ہو جاتی ہیں جب تک۔۔۔ایک اور آواز گونجی جب تک یہ سسٹم تبدیل نہیں ہوتامجھے تو بہتری کی کوئی امید نظرنہیں آتی
میں اکثر سوچتا رہتاہوں پاکستان میں جمہوریت سے مراد شاید خاندانی بادشاہت ہے میاں نوازشریف کے 22عزیز واقارب حکومت میں موجود ہیں ماضی میں یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی تھی مذہبی جماعتوںکا حال شاید سب سے برا ہے دن رات جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والوںمیں اختلاف رائے بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پارٹی ورکرتوبہت دورکی بات ہے یہ اپنی پارٹی کے ارکان ِ اسمبلی کو ملازم جتنے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں ہے جتنا غورکریںدل کو یقین ہوتا جاتاہے ملک میں جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ موجودہے شاید ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر موجودہ حکومت تک سب جمہوری حکمرانوںکو انہی روایات سے پیارہے تبھی تو ان کو سینے لاکر رکھنا فخرسمجھا جاتاہے
اس صورت ِ حال کے ذمہ دار عوام بھی ہیں جوتسلیم بھی کرتے ہیں زبان سے اظہار بھی لیکن انہوںنے ان سیاسی جماعتوںکو ایمان کا حصہ بنایا ہواہے ۔۔جب بھی کوئی یہ پو چھتاہے کسی ایک سیاستدان کا نام لو جو سیاسی دوکاندار نہیں سب بغلیں جھانکتے لگتے ہیں۔ کمال، حیرت ،افسوس اور اس سے بڑھ کریہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارا دامن خالی ہے ہم کسی سنگل پرسن کو بھی نہیں جانتے جس کے بارے میں دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دوکاندارنہیں یعنی یہ ایسا قحط الرجال ہے جس کے بارے میں علامتی طورپر کہا جا سکتا ہے
قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں جب تک اکثریت فیصلہ نہ کرلے کہ ہم نے اس ملک میں وہ جمہوریت لانے کی کوشش کرنی ہے جس کے ثمرات سے عوام فیضیاب ہوں تبدیلی آنا ممکن ہی نہیں اس حقیقت سے بھلا انکارکیا جا سکتاہے کہ موجودہ ارکان ِ اسمبلی کوعام آدمی کے مسائل سے دلچسپی ہے نہ تعلق۔ یہ عام آدمی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہوں گے بیشتر سیاستدان قومی وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں بندہ پائو آدھا کلو گوشت لینے چلا جائے قصائی کا انداز ایسا بے رحم ہوتاہے غریب کا دل کرتاہے گوشت نہ کھائے اس سے بہتر ہے کہ زہر کھا لے۔
Imran Khan
ان حالات میں عمران خان کی بات نہیں انہوں نے صرف موروثی سیاست کے خلاف مورچہ سنبھالا ہواہے جبکہ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید عوامی ایشوپر بات کرتے ہیں اور انکی بات دل کو لگتی ہے وہ موجودہ سسٹم کے خلاف ہیں جتنی منظم سٹریٹ پاور عوامی تحریک کے پاس ہے شاید کسی کے پاس نہ ہو اسی لئے کئی بزرجمہروںنے میاں نواز شریف کو ایک احمقانہ مشورہ دیا ہے کہ طاہر القادری کو گرفتار کرلیا جائے اس مشورے پر عمل کرلیا گیا تو حکومت زیرو شیخ الاسلام ہیرو بن جائیں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن لیڈربن کر ابھریں گے۔۔کچھ لوگوںکا خیال ہے
ایک بات بڑی عجیب ہے شیخ رشید ،عمران خان اورطاہر القادری تینوں موجودہ حکومت کے خلاف ہیں ۔۔میاں نواز شریف کو ٹف ٹائم دینا بھی چاہتے ہیں لیکن ان میں بھی کوئی اشتراک ِ عمل نہیں ۔۔۔تال میل بھی نہیں ۔۔۔منصوبہ بندی نظر آرہی ہے نہ حکمت ِ عملی ۔۔۔ علیحدہ علیحدہ تنہا تنہا۔۔ کیا احتجاجی تحریکیں اس طرح بھی چلائی جا سکتی ہیں حالانکہ یہ ٹرائیکا سیاسی ٹمپریچر بڑھا سکتی تھی اس سے ظاہر ہے عمران خان کے دل میں ایسا ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے یاپھر وہ ڈبل مائنڈڈ ہیں اس وقت ،عمران خان اورطاہر القادری اور چوہدری برادران ۔۔۔میاں نوازشریف کو ٹین شین دینے کیلئے حکومت مخالف ہر سیاستدان سے رابطے کررہے ہیں کل ایک شخص کہہ رہا تھا کہ یہ بھی ان کی سیاست ہے
علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم ہونے کے باوجود ان سب کا مطمع ٔنظر نواز شریف حکومت کا خاتمہ ہے۔۔بہرحال گو نواز گو کا نعرہ حکمرانوں کا پیچھا ایسے کررہاہے جیسے بد نصیبی پیچھا کرتی ہے وزیر مشیر جہاں جاتے ہیں لوگ حلق پھاڑ کر ” گو نواز گو ”کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں لگتاہے یہ آج کا مقبول ترین نعرہ بن چکاہے ۔۔۔یہ سب بجا لیکن یہ بات غورطلب ہے کہ ہم اتنے تہی دامن ہیں کہ ہمارے پاس تمام دکاندارہیں کام کا سیاستدان ایک بھی نہیں دور کہیں دور استاد امانت علی ۔۔انشاء جی کی غزل گارہے تھے جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس دامن کا پھیلانا کیا؟