آرمی چیف کو بطور گواہ پیش کر سکتے ہیں، صحابہ کرام کے بعد کوئی صادق امین نہیں، جسٹس جواد

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزیر اعظم نا اہلی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس دوست محمد نے درخواست گزار کے وکیل طاہر نواز سندھو سے استفسار کیا۔ کیا آپ آرمی چیف کو بطور گواہ یا ان کا بیان حلفی پیش کر سکتے ہیں۔

یہ معاملہ تو وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان تھا وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ صحابہ کرامؓ کے بعد تو اب کوئی صادق اور امین نہیں، آپ کی بات مان لی جائے تو ساری پارلیمنٹ ہی نا اہل ہو جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا آپ اخباری بیان پڑھ کر پٹیشن لے آئے۔ بات اب آگے جائے گی، سب آئیں گے، بیان دیں گے اور جرح ہو گی درخواست گزار نے کہا کہ بات اس حد تک نہیں جائے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بات تو آگے جائے گی حقائق کو دیکھنا ہے۔

وزیر اعظم نے آرمی چیف کو درخواست کی تھی یا نہیں، اس کا جواب صرف آرمی چیف ہی دے سکتے ہیں۔ قوم کو آپ کا شکر گزار ہونا چاہئے آپ اس معاملے کو عدالت لے آئے۔ بات اب کھلے گی، یہ بھی پتہ لگنا چاہئے کہ عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان کیا بات ہوئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کی درخواست پرانے آئین کی روشنی میں تیار ہوئی۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق سے متعلق سوچنے کا موقع دیا جائے ، اگر نا اہلی کی شقیں لاگو نہیں ہوتیں تو حلف کی خلاف ورزی پر نواز شریف کیخلاف کارروائی کی جائے ۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ خلاف ورزی ثابت ہوگی تو کارروائی ہو گی۔ خلاف ورزی ثابت کرنے کیلئے آرمی چیف کو حلفیہ بیان دینا ہوگا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اب ہم اس درخواست کو واپس لینے کی بھی اجازت نہیں دیں گے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میرے ٹکڑے بھی ہو جائیں تو میں درخواست واپس نہیں لوں گا، کیس کی سماعت پندرہ اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔