تحریر: ایم ایم علی 14 اگست سے شروع ہونے والا سیاسی دنگل تقریبا اپنے 50 دن مکمل کرنے جا رہا ہے لیکن اس دنگل کا کا ابھی تک منطقی انجام نظر نہیں آرہا اور مستقبل قریب میں بھی اس دنگل کا نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ ویسے تو حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان 2013 میں ہونے والی مبینہ انتخانی دھاندلیوں کی تحقیقات کرانے کے متعلق تھا لیکن بعد میں یہ مطالبہ وزیر اعظم صاحب کے استعفے تک جا پہنچا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ احتجاج کرنے والی جماعتیں وزیر اعظم کا استعفی لیے بغیر پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیں جبکہ حکومت کسی صورت پر وزیر اعظم کا استعفی دینے کو تیا نہیں۔ دونو ں فریقوں نے وزیر اعظم صاحب کے استعفے کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ پہلے یہ احتجاج دھرنوں تک محدود تھا لیکن دھرنوں میں عوام کی وہ دلچسپی نظر نہیں آئی جس کی توقع احتجاج کرنے والی جماعتیں کر رہی تھیں۔ اگر پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے 14اگست سے لے کر اب تک ایک دن بھی چوبیس گھنٹے کیلئے دھرنہ نہیں دیا بلکہ سر شام پی ٹی آئی کے کا ر کن جمع ہوتے ہیں اور پارٹی نغموں سے محظوظ ہونے کے بعد رات گئے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اب تک اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی جانب سے جلسے ہی کئے جا رہے تھے، اب پی ٹی آئی نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے ان جلسوں کو شہر شہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کراچی اور لاہور میں تحریک انصاف نے بڑے جلسے کئے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے جلسے دوسر ی جماعتوں کی نسبت بڑے ہوتے ہیں اور ان میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے لیکن اس کے برعکس جب پارٹی کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک، لانگ مارچ یا سول نافرمانی کی کال دی جاتی ہے تو وہی لوگ پی ٹی آئی کے جلسوںمیں کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور بقول پی ٹی آئی کے جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، وہ لاکھوں لوگ قیادت کی کال کے با وجود جلسوں جیسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے۔اگر بات کی جائے عوامی تحریک کی تو وہ احتجاج کے پہلے دن سے لے کر اب تک سہی معنوں میں دھرنہ دئیے بیٹھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی تحریک کے دھرنے میں اکثریت علامہ صاحب کے مریدین کی ہے یا پھر اس میں مہناج القران کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے طالب علم ہیں۔اور بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دھرنے میں بہت سے لوگوں کو پیسے دے کر لایا گیا ہے۔
Imran Khan And Tahir ul Qadri
بہرحال وہ لوگ کوئی بھی ہوں ہیں تو انسان ہی، اتنے دن مسلسل دھرنے پر بیٹھے رہنا کوئی آسان بات نہیں ۔اب کچھ دنوں بعد عید کی آمد آمد ہے اور میڈیا کے مطابق لو گوں نے اب اپنے گھروں کو جانا شروع کر دیا ہے، لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں موجود ہے۔خان صاحب کی دیکھا دیکھی یاپھر کسی خفیہ حکمت عملی کے تحت قادری صاحب نے بھی عید کے بعد شہر شہر جلسے کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔دھرنوں کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے کے بعد دونوں جماعتوں کی شہر شہر یاترا کی پالیسی کتنی سود مندثابت ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔14 اگست سے شروع ہونے والے اس احتجاج کا احتجاجی جماعتوں کو کوئی فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ملک کو معاشی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
کئی ممالک کے سربراہاں کے دورے منسوخ ہو چکے ہیں بلخصوص ہمارے عظیم دوست چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہونا اور اور چین کی بھارت میں 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کر نا حکومت اور ہمارے سیاست دانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہو نا چاہیے ۔اس ساری صورت حال کی ذمہ دار احتجاج میں مصروف جماعتیں تو ہیں ہی،لیکن حکومت کو بھی کسی صورت بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔حکومت کے قیام کے بعد موجودہ حکومت کی جانب سے کئی اچھے اقدامات اٹھائے گئے لیکن اس میں بھی کو ئی شک نہیں کے حکومت عوام کو ریلف دینے میں ناکام رہی اور حکومت کی بعض پالسیوں کی وجہ سے عام میں حکومت مخالفت بڑی ،لیکن افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ حکومت اب بھی اپنی غیر مقبول پالسیوں پر نظر ثانی کرنے کو تیا ر نہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے حالیہ مہنگا ترین دورہ امریکااور وہاں پر کی گئی شاہ خرچیاں حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کو ہوا دینے کیلئے کافی ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ترقی کی منازل طے کرتا ہوا مریخ پر جا پہنچا ہے اور ہمارے سیاست دان دھرنوں،جلسوں، پروٹوکول اور شاہ خرچیوں کی سیاست سے باہر نکلنے کو تیا ر نہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن ہمارے سیاسی رہنما آج بھی ایک دوسر ے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسر ے کی ٹانگیں کھیچنے میں مصروف ہیں۔
ایک صوبے میں اپریشن ضرب عضب کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر آئی ڈی پیز کی شکل میں بے یارو مدگار بیٹھے ہیں، ایک صوبے میں سیلاب کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، باقی دو صوبوں امن امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔لیکن ہمارے سیاستدان ان معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ایک دوسر کے خلاف سیاسی دنگل لگائے بیٹھے ہیں اور مسائل سے گھری عوام اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کب ان کا دنگل ختم ہو اور ان کی توجہ ہمارے مسائل کی طرف بھی پڑے لیکن وہ ان سب باتوں سے بے نیاز اپنی انا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما یہ سیاسی دنگل لگا تو بیٹھے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کو کس بچھاڑتا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس سیاسی دنگل کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے ایک فریق دوسرے فریق کو ہرائے یا پھر یہ مقابلہ برابر رہو یا پھر ریفری سیٹی بجا کر دونوں فریقوں کو رنگ سے باہر کر دے، نقصان تو ہر صورت میں ملک اور عوام کا ہی ہو گا۔