تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم عمران خان اپنے کراچی، لاہور اور میانوالی کے بڑے اور کامیاب جلسوں کے بعد مسلسل آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ثابت کر رہے ہیں کہ ملک کی اکثریت اِن کے ساتھ ہے اور اَب اِس میں کوئی شک نہیں ہے اور کوئی دورائے نہیں ہے کہ عمران خان کے کامیاب جلسوں سے حکمران جماعت کو اپنا گراف گرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، اِسی وجہ سے یہ بری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔
اَب ایسے میں جہاں حکمران جماعت مشکل میں نظرآرہی ہے تو وہیں اپوزیشن کی بعض جماعتیں بھی حکومت کا ساتھ چھوڑنے پر بغلیں جھانک رہی ہیں اور یہ بھی اپنے کسی نئے فیصلے کے لئے کسی وقت کے انتظار میں ہیں اور حکومت تو بیچاری پہلے ہی پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ چھوڑنے پر حکومت کا شیرازہ زمین بوس ہو جائے گا تو اِسی خدشے اور مخمصے کے پیشِ نظر تو حکومت اپنی بقاء کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔ آخر کار اِس کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں سرگودھا کے علاقے شاہ پورمیں متاثرین سیلاب میں امدادی رقوم کی تقسیم کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے برداشت کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے عمران و قادری کو سخت دھمکی آمیز لہجے میںیہ تک کہہ گئے کہ” خان صاحب جو کام کررہے ہیں، اِس کا انجام برا ہو گا۔
اللہ کے شیر( اِس وقت اِن کا اشارہ دراصل ن لیگ کے جیالے شیروں کی جانب تھا) جاگ گئے تو سرخی رہے گی نہ پاو¿ڈر۔ اُنہوں نے کہا کہ دھرنوں کی سیاست کرنے والوں نے کنٹینر سے اتر کر عوام کی خدمت نہیں کی۔ اللہ کے شیروں کو صبروتحمل سے کام لینے کے لئے کہا ہے، گو گو کا نعرہ لگانے والوں کو پتہ نہیں کہ اللہ کے شیرجاگے تو پھر سرخی رہے گی نہ پاو¿ڈر،اِس موقع پر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کہ وزیراعلیٰ پنجاب (المعروف خادمِ اعلی) شہباز شریف نے دھرنے والوں (عمران و قادری) کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہمارے بھی لاکھوں کارکن ہیں ”گو نواز گو“ کے نعرے لگوا کر آپ اچھانہیں کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ”اگر اللہ کے شیر جاگے تو پھر سرخی رہے گی نہ پاو¿ڈر۔“ ایسے لگاکہ جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اللہ کے وہ شیرجو ابھی اِن کے بے قابو میں ہیں، اگر یہ صبر و تحمل کے جنگلے کو توڑ کر بے قابو ہو گئے تو دھرنوں والوں کا جو ہو گا…؟وہ ساری دنیا حیرت زدہ ہو کر دیکھے گی …!!لہذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے عمران و قادری اپنی اور اپنے جنونیوں اور مریدین کی زبانیں بند کروائیں اور اِنہیں گو نواز گو کے نعرے سے باز رکھیں…اور اِسی طرح ن لیگ کے بہت سے نئے اور پرانے عہدیداروں اور کارکنان کا بھی یہ کہنا ہے کہ ”آج ریڈزون میں دھرنا دینے والے ڈنڈا بردار جس انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں وہ ن لیگ کے ہوتے ہوئے کبھی بھی نہیں آ سکتے ہیں، اور ڈنڈابرداروں اور لندن سازشوں کی ہر چال کو ن لیگ والے اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر ناکام بنادیں گے جس کے لئے ہمارے ساتھ (یعنی کہ اِن اقتدارکے پجاریوں کے ہمراہ) سب ہی ایک پیج پر ہیں۔
کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے، ابھی تو ہم نے پچھلے انتخابات میں جتنی رقم لگائی تھی، ہمیں تو اٹھارہ ماہ کے اقتدار سے آدھی بھی وصول نہیں ہوئی ہے، ہم نے تو حکومتی مدت پوری ہونے تک اپنی رقوم کا پانچ سو گنا زائد کمانے کا سوچ رکھا ہے، واہ بھئی واہ….!! ہم دھرنیوں کے دباو¿ میں اپنے منصوبے کیوں ادھورے چھوڑ جائیں…؟؟بھلایہ بھی کوئی طریقہ ہے، پی پی پی والے اپنی حکومت پوری کر جائیں اور کما کر جائیں اور ہم کیوں اور کس کے لئے اپناہاتھ آیا ہوااقتداراٹھارہ ماہ ہی میں کسی کٹی پتنگ کی طرح چھوڑ جائیں اور مزے کوئی اور لے….!!ایسے بہت سے جملے اور خواہشات ہیں جو ن لیگ والے جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہوئے نظرآتے ہیں ،مگر دھرنے والوں کو حق سچ جانتے ہوئے بھی اپنی ضد اور انا کے خاطر اقتدار چھوڑنے کو کسی صورت تیار نہیں ہیں۔
Elections
بہرحال …!! آخر اَب کب تک اقتدار کے پجاری دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے ایک پیج پر رہے ہیں گے…؟ اور یہ اَب کب تک کرسی اقتدار سے چمٹے رہیں گے.. ؟اور آخر کب تک ہمارے یہاں دھاندلی سے حکومتیں بنتی رہیں گیں..؟اور مخصوص خاندان والے جمہوریت کی آڑ میں قوم پر بادشاہت نما حکمرانی کرتے رہیں گے ..؟ آج جبکہ ایسے میں گو نواز گو کی آوازیں چار سو زمینوں آسمانوں اور سمندروں سے بھی آ رہی ہے، یعنی یہ کہ ساری دنیا کے لوگوں کے گو نواز گو کے نعروں سے بحروبراور فلک بھی گونج رہے ہیں، اَب ایسے میں اپنی نام نہاد جمہوریت کے پجاری جو دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے اقتدار کی مسندپر قابض ہوئے ہیں اَب اِنہیں جلد یاد یر جانا یقینی ٹھیر گیا ہے۔
اَب مان لیجئے کہ دھرنے والوں کی عزم وہمت کے آگے ن لیگ والوں کی سیاسی حکمتِ عملی بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اِنہیں موجودہ سیاسی بحران میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ یہ اِس بڑے سیاسی بحران سے کس طرح نکل کر اپنی جان چھڑائیں اور اپنی عزتیں بچائیں اور سرخرو ہوں، ن لیگ جو قومی اداروں کو اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے میں اپنی مثال آپ ہے، آج اِسی ن لیگ نے وقتی طور پر مفاہمتی پالیسی اپنائی ہے اور اِس نے عوام میں گرتا ہوا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کےلئے وفاقی اور قومی اداروں کی فروخت کا عمل روک دیا ہے، اور عوام میں دوبارہ اپنا گراف بڑھانے کے خاطر وفاقی اداروں میں میرٹ کا بہانہ بناکر اپنے منحرف اور ناراض کارکنان کی بھرتیوں کے لئے ملازمتوں پر عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کر کے اپنے کارکنان کو ملازمتیں بٹانی شروع کر دی ہیں، جب ن لیگ کے گلو بٹ جیسے کارکنان کو وفاقی اداروں میں ملازمیں مل جائیں گیں تو پھر اِن اداروں پربھی محکمہ پولیس کی طرح گلوبٹوں کا اثر ہو جائے گا اور اِن اداروں کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی، میرٹ کا کھلے عام قتل ہو گااور ن لیگ کے جیالے (گلوبٹ جیسے) کارکنان سارے مُلک میں پھیلے ہوئے قومی اداروں میں بھر جائیں گے اور پھر یہ ہوں گے اور قومی ادارے ہوں گے، ہمارے قومی ادارے کسی بھی لحاظ سے ایسے نہیں ہیں کہ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نوازشریف اِنہیں کوڑیوں کے دام فروخت کرکے نجی تحویل میں دیںمگر یہ کیسی وزیراعظم کی سوچ ہے کہ یہ جب بھی اقتدارمیں آئے ہیں اِن کی ساری توجہ قومی اداروں کی نج کاری اور ڈاو¿ن سائزنگ اور گولڈن ہینڈشیگ کی طرف ہی رہی ہے مگرآج جبکہ وزیراعظم نواز شریف کی مزدور دشمن پالیسیز سمیت دیگر سیاسی و معاشی اعتبار سے عوام و مُلک پالیسیز کے خلاف عمران و قادری نکلے کھڑے ہوئے ہیں تو وزیراعظم نواز شریف کو عوام کو نوکریوں سمیت کچھ معاملات میں بھی ریلیف دینے کا خیال پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے ورنہ تو ایسا کبھی ممکن ہی نہیں تھا، سوچیں ایساآخرکب تک ہوگا..؟نوازشریف اور اِن کی حکومت کو جاناہوگا،اور بس جانا ہو گا آخر اَب یہ کب تک دھونس، دھمکی اور دھاندلی پر قائم رہ سکے گی۔؟؟ آج قوم جاگ گئی ہے اور باشعور ہو گئی ہے، اَب مان جاو کہ آج یہی تو انقلاب اور تبدیلی ہے۔