اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز میں دن بہ دن اضافہ تشویشناک صورت اختیار کر گیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد 194 ہو گئی ہے۔
طبی ماہرین اس صورتحال کو پریشان کن قرار دے رہے ہیں کیونکہ دنیا میں پولیو وائرس پر پوری طرح قابو نہ پا سکنے والے دیگر دو ممالک یعنی نائیجیریا اور افغانستان میں رواں سال پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد پاکستان سے کہیں کم ہے۔
پولیو کے کیسیز میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار بھی بتایا جاتا ہے جس کی وجہ ان قطروں کے بارے میں کیا جانے والا یہ پروپیگنڈا ہے کہ اس سے افزائش نسل متاثر ہو سکتی ہے۔ جسے طبی ماہرین سراسر بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔
اس کے علاوہ2012 کے اواخر سے انسداد پولیو کی مہم سے وابستہ رضاکاروں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کے سلسلے کے بعد ملک میں یہ مہم متعدد بار تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔
گو کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پولیو کے خلاف مہم کو شد و مد سے شروع کرنے کا اعادہ کیا ہے لیکن اب بھی سلامتی کے خدشات اور بعض دیگر عوامل اس مہم کے تواتر اور افادیت کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جا رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت “ڈبلیو ایچ او” پہلے ہی پاکستان کو دنیا میں پولیو کے پھیلاؤ کا سبب قرار دیتے ہوئے یہاں سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے پولیو ویکسین پینا لازمی قرار دے چکا ہے۔
واضح رہے کہ پولیو کے زیادہ تر کیسز وہیں سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں یا تو پولیو مہم منعقد ہی نہیں ہوئی یا پھر ایسے علاقے ہیں جہاں یہ مہم اپنے اہداف پورے کرنے میں کامیاب نہ یں ہو سکی۔
ڈبلیو ایچ او کے انسداد پولیو سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والے سرد موسم میں انسداد پولیو کی مہم کو اگر تواتر سے جاری رکھا گیا تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اگر بات کریں گزشتہ برسوں کی تو 2013 میں پاکستان میں پولیو کے 93 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ 2012ء میں یہ تعداد صرف 54 تھی۔