بنگلور (جیوڈیسک) بنگلور میں فائنل میچ کے لئے کے کے آر کے کپتان گوتم گھمبیر اور چنائی سپر کنگز کے مہندر سنگھ دھونی دونوں میدان میں اترے تو ٹاس سے لے کر رائنا کی تباہ کن بیٹنگ تک سب کچھ دھونی کے حق میں گیا۔ پہلے دھونی نے ایک اچھا ٹاس جیتا، جو اگر گھمبیر جیت لیتے تو شائد وہ بھی پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کرتے۔
اتھاپا اور گھمبیر کے درمیان پہلی وکٹ کی شراکت میں شاندار 91 رنز بنے تو اتھاپا کے آوٹ ہونے کے بعد میچ پر گرفت بتدریج دھونی کی ہی مضبوط ہوتی تھی۔
یاد رہے کہ 11 اوورز میں اگر 91 رنز پر پہلی وکٹ گری، تو اس کا مطلب ہے کہ بیس اوورز کے اختتام تک مجموعی سکور 200 کے قریب ہو نا چاہئے تھا۔ لیکن جب سیمی فائنل میں شاندار کارکردگی دکھانے والے کیلس صرف ایک رن پر پیولین لوٹ گئے تو شائد اپنے ساتھ کولکتہ کی امیدیں بھی سمیٹ لے گئے۔
گھمبیر کے 80 رنز اور بعد میں پانڈے کے 32 اور یوسف پٹھان کے 20 ناٹ آوٹ کے علاوہ کوئی بلے باز نہ جم سکا اور چھ وکٹوں پر 180 رنز دیکھنے کو تو ایک اچھا ٹوٹل نظر آتے تھے ، مگر ایسا ثابت ہو نہ سکا۔
پھر جب چنائی کے نہرا، شرما، اور ایشوین جیسے نمایاں باولرز وکٹ لیس رہے، تو ایسے میں نیگی نے کمال کر دکھایا اور صرف 22 رنز کے بدلے 5 وکٹ لے کردھونی کی امیدوں کو زندہ رکھا۔
کولکتہ کے باولر یکسر ناکام ثابت ہوئے اور پہلے اوور میں سمتھ کی وکٹ لینے کے بعد انہیں دوسری وکٹ کے لئے لمبا انتظار کرنا پڑا، اور جب ملی تو مجموعی سکور 13 اوورز میں 127 ہو چکا تھا۔
رائنا نے 62 گیندوں پر 8 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 109 ناٹ آوٹ بنا کر پیغام دیا کہ اگر کے کے آر کا سکور 200 سے اوپر بھی ہوتا تو بھی وہ ہارنے کے موڈ میں نہ تھے، اور اس ہدف کو بھی پا لیتے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دھونی ایک بار پھرقسمت کے دھنی نکلے، اور حسب توقع فائنل میں کامیابی حاصل کر لی۔