برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے خداوند تعالیٰ نے اتنی خوبصورت کائنات میں زمین ہی ایسی جائے پناہ بنائی جہاں ہر ذی روح ایک حد تک زندہ رہ سکتا ہے بشرطیکہ اس انمول جائے پناہ کی حفاظت کی جائے ،لاکھوں کروڑوں سالوں سے قائم اس بستی (زمین)پر اربوں انسانوں اور حیوانوں نے جنم لیا اور وقت پورا ہونے پر اسی میں دفن ہو گئے آج بھی اس زمین پر روزانہ ہزاروں لاکھوں انسان و حیوان جنم لیتے ہیں اور روزانہ ہی اسی میں دفن ہو جاتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بیتے سالوں و صدیوں میں انسان ترقی یافتہ نہیں تھا جبکہ آج ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ زمین کب اور کیوں بنی اور اس کی حفاظت کرنے سے ہر انسان کچھ زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔
ہماری اس خوبصورت زمین کی برداشت کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے کیونکہ ہم اس کی حفاظت کرنے میں ناکام، اہمیت سے کوسوں دور اور نابلد ہیں،ہم انسانوں نے اس زمین کا وہ حال بنا دیا ہے کہ بنانے والے کو بھی افسوس ہوتا ہوگا کہ کتنی خوبصورت چیز بنائی تھی کتنے خوبصورت جانور (انسان) بنائے تھے لیکن کسی نے میری بنائی کائنات کی قدر نہیں کی اور اب وہ دن دور نہیں جب ان احسان فراموش انسانوںکی جہالت کے سبب انہی کے ہاتھوں اس کا خاتمہ ہوگا،دیکھا اور سوچا جائے تو بات کسی حد تک سچ ہے کہ ہم لوگ بس لوگ ہیں ایک ہجوم اور کچھ نہیں ،انسانوں والی کوئی خصلت تو پائی نہیں جاتی
اس زمین کے مختلف خطوں میں چند باشعور انسان اسے مزید زندہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ مٹھی بھر انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ ہجوم میں جہالت کوٹ کوٹ کر بھری ہے،گزشتہ پچاس سالوں کے دوران اسی ہجوم میں سے چند انسانوں میں شعور بیدا ر ہوا اور اب تک وہ اسی کوشش میں ہیں کہ زمین کو مزید اس قابل بنایا جائے کہ یہ ہجوم چند سال زندہ رہ سکے ۔لیکن اسی ہجوم میں اکثریت ان جاہلوں کی ہے جو اسے صبح و شام روندتے ہیں اور تباہ کرنے پر تلے ہیں انہیں زمین یا اس کی اہمیت سے کوئی سروکار نہیں وہ چاہتے ہیں جب تک میں زندہ ہوں زمین زندہ رہے میں مر جاؤں تو زمین پھٹے یا تباہ ہو مجھے کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے مستقبل قریب میں یہ خوبصورت سیارہ ہماری جہالت مزید برداشت نہیں کر پائے گا اور ایک غبارے کی طرح پھٹ جائے گاانسانوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے،دنیا میں ہر وقت ہر لمحہ کہیں نہ کہیں یہ زمین قدرتی آفات کا شکار ہو تی ہے گزشتہ کئی سالوں سے مزید اضافہ ہو رہا ہے اور ہزاروں لاکھوں انسان انہی آفات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،دوسری طرف اس زمین کے چند خطوں پر جہالت کا راج ہے اور اسی جہالت کی بدولت ماحولیاتی آلودگی اور غلاظت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،ماحولیاتی اداروں کا کہنا ہے دوہزار چودہ میں شائع ہوئی قدرتی آفات پر مبنی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک خطرات سے بھرے ہیں ،ان خطرات میں خشک سالی ، زلزلے، ریتیلے و برفانی طوفانوں سے دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو خطرہ ہے،ماہرین کا کہنا ہے
Flood
اگر ترقیاتی کاموں میں تیزی نہیں آئی تو قدرتی آفات سے بچاؤ ناممکن ہو گا۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیویارک اور ڈھاکہ میں بہت فرق ہے اور ترقیاتی کام ہی ڈھاکہ کو قدرتی آفات سے بچا سکتے ہیںدوسری مثال جرمنی اور پاکستان کی ہے گزشتہ سال مئی جون میں جرمنی میں سیلاب آیا تو آٹھ افراد کی اموات ہوئیں جبکہ اسی سال جولائی اگست کے سیلاب نے پاکستان میںتباہی مچا دی اور سترہ سو افراد سیلاب کی نظر ہو گئے۔
دنیا کا کوئی خطہ اگر قدرتی آفات سے تباہی کا شکار ہوتا ہے تو ان عوامل پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کس علاقے میںہے اور کس حد تک تباہی کے اثرات ہیں۔بون میں واقع اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کے ماہرین نے دو ہزار گیارہ میں خطرات میں گھرے چند ممالک کا انڈیکس تیار کیا کہ کن ممالک میں قدرتی آفات کا انتہائی خطرہ ہے،ماہرین کے تجزئے کے مطابق قدرتی آفات کے خطرات پیسیفک کے جزیرے جن میں وانواٹو،فلپائن یا ٹونگا شامل ہیں جو سمندری طوفان کی وجہ سے زیر آب آسکتے ہیںدوسری طرف گوئٹے مالا اور بنگلا دیش بھی قدرتی آفات کے خطوں میں شمار ہوتے ہیں،وسطی امریکا اور ساؤتھ امریکا کے علاوہ جنوب مشرقی یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور جاپان کے کچھ حصے خطرناک قرار دئے گئے ہیںجہاں سونامی جیسا طوفان دوبارہ آسکتا ہے
جبکہ قدرتی آفات کے خطرات افریقہ کے شہروں میں کم ہیں، یورپی یونین میں سیلابی خطرات نیدر لینڈ میں ہیںجو سروے کے مطابق اکیاون نمبر پر ہے دیگر یورپی ممالک میں جرمنی میں سیلاب کے کم خطرات ہیں اور قدرتی آفات کی لسٹ میں اس کا نمبر ایک سو سینتالیس ہے۔سیلاب کا سب سے کم خطرہ قطر،مالٹا اور سعودی عرب میں ہے، ماہرین کا کہنا ہے ترقی پذیر ممالک کے افراد خطرات میں گھرے عجیب سے مقامات پر رہائش پذیر ہیں مثلاًسیلاب زدہ دریاؤں کے قریب، رہائش مستحکم نہ ہونے اور سیلاب کی صورت میں بچاؤ کے ناقص انتظام سے ان کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے علاوہ ازیں عمارات بھی بنیادی طور پر مستحکم نہیں ہوتیں پانی کا اخراج یا صاف پانی دستیاب نہیں ،صحت و خوراک کی فراہمی یا صفائی کا معقول انتظام نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر آبادی کا تیز رفتاری سے بڑھنا ، ان وجوہات کی بنا پر ان خطوں میں خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں شہروں کو بھی کئی خطرات کا سامنا ہے تاہم ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے
لیکن قدرتی آفات کی صورت میں ہوائی اڈوں یا سینٹرل منیجمنٹ کسی بھی وقت ناگہانی آفت کا شکار ہو سکتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کے خطرات سے بچاؤ کیلئے ترقیاتی کاموں کو تیز کیا جائے تاکہ کم سے کم اموات واقع ہوں اور ہنگامی صورت حال پر قابو پانے کیلئے چوکنا رہا جائے۔ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگ حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ہزاروں انسان بے گھر ہوتے ہیں ان کے مال و اسباب پانی کی نظر ہو جاتے اور وہ غریب اپنی مدد آپ یا پاک فوج انکی مدد کرتی ہے جو کہ فوج کے فرائض میں شامل نہیں ہے ۔ملکی سطح پر خطے کی اصلاحات، ترقی، بہبود، خوشحالی اور تحفظ فراہم کرنا حکومتوں کے کام ہوتے ہیں اس مالی امداد یا دو لفظوں کی مزاج پرسی کا کیا فائدہ جو چند دن یا ماہ تک ہی قائم رہے
ان آنی جانی حکومتوں کے کنگز اور پرنسز کو چاہئے کہ سیلابی دریاؤں سے دس کلو میٹر دور غریب افراد کے لئے بستیاں ، کالونیاں اور ٹاؤنز تعمیر کرائیں جن میں ضروریات زندگی کی ہر شے ہر انسان کو میسر ہو،پھر بھلے سیلاب آئے کم سے کم انسان تو محفوظ رہیں گے،لیکن جن رہنماؤں کو بول بچن مارنے اور فوٹوز سیشن کا شوق ہو وہ بھلا کیا جانیں کہ مٹی کے گھروندے میں رہنے والے کی مشکلات کیا ہوتی ہیں،اور غربت میں گھری پہاڑ جیسی زندگی کیسے گزارتا ہے۔