تحریر: صفدر علی حیدری پانی، خالق اکبر کی قدیم ترین تخلیق ہے۔ کتاب ہدایت کی نظر میں زندگی نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور یہی کائنات کی بنیادی اکائی بھی ہے۔سو پانی جانداروں کے وجود کا ہی نہیں خمیر کا بھی حصہ ہے۔ دنیا کی ہر انسانی تہذیب دریا کے کنارے پروان چڑھی اور پل کر جوان ہوئی اور بعض تو اسی کے ہاتھوں معدوم بھی ہوئیں۔ انسان اس سے ڈرتا بھی ہے اس پہ مرتا بھی۔ نڈر اور بے باک قومیں تو اسکی تلاش میں آسمان کی بے کراں وسعتوں میں ماری ماری پھرتی ہیں (اور تو اور بھارت بھی مریخ تک جا پہنچا ہے) کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف مریخ پر پانی کی موجودگی کے آثار زندگی کے امکانات کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری طرف زمین زادے اس صدی کو پانی پر جنگ کی صدی قرار دے رہے ہیں۔
ایک طرف لوگ اس کے نئے نئے امکانات کیلئے ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں تو دوسری طرف لوگوں کے پڑوسی دریا گلے کا پھندہ ثابت ہو رہے ہیں۔ سچ ہی تو ہے کہ جو لوگ اپنی عقل کو کام میں لانے سے گریز کرتے ہیں ،کبھی سراب کے ہاتھوں فریب پاتے ہیں اور کبھی سیلاب کے ہاتھوں جانیں گنواتے ہیں۔جب پانی بے قابو ہونے لگے اور بے اختیار اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو خش و خاشاک کی طرح بہا لے جائے تو ہم اسے سیلاب کا نام دیتے اورآسمانی آفت اور عزاب گردانتے ہیں ۔خشکی کاکوئی ٹکڑا ایسا نہیں جو پانی سے بل واسطہ یا بلا واسطہ متاثر نہ ہوتا ہو۔شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جو پانی سے ”متاثر ”نہ ہوئی ہو۔یہ پانی بارش کا بھی ہو سکتا ہے ،سمندر وں کا بھی اور دریا ؤں ندی بالوں کابھی۔ کبھی کبھی تو آنکھ سے نکلے آنسو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔آج میرے دیس کے لوگ پانی کے حصار میں بند ہیں ۔لیکن ناجانے کیوں مجھے وہ پانی زیادہ متاثر کر رہا ہے جو اس ستم رسیدہ لوگوں کی آنکھ سے بہہ رہا ہے۔
آج کل پھر سیلاب کا” موسم ”اپنے زوروں پر ہے۔ یہ سیلاب لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں، ہزاروں مکانات، باغات اور مال مویشی ہڑپ کر چکا ہے اور جانی نقصان تیسرا ہندسہ چھو چکا ہے
میں سوچتا ہوں کیاسیلاب محض زحمت ہے، نری مصیبت۔۔۔کیا اس میں ایک بھی خیر کا پہلو موجود نہیں ؟۔آبی ماہرین کے بقول اسکے کچھ مضمرات ہیں تو کچھ فیوض و برکات بھی ضرور ہیں لیکن یہ صرف انہی کا حصہ ہیں جو کفران نعمت نہیں کرتے ۔جو عزم و ہمت سے کام لیکر اس کے آگے بند باندھ دیا کرتے ہیں۔اور ظاہر ہے ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں کہ ڈیم بنانا ہمارے ہاں بہت بڑا ”جرم”سمجھا جاتا ہے۔ یہ سیلاب کوئی پہلی بار آیا ہے نہ آخری بار کہ اس کی تاریخ، انسانی تاریخ سے کہیں زیادہ قدیم ہے ۔یہ پانی کہاں سے آتا ہے ،کہاں کہاں سے گزرتا ہے،کون سے مقامات پر اسکی شدت میں ظالمانہ حدتک اضافہ ہو جاتا ہے، کتنے دیہاتوں کو شدید متاثر کرتا ہے۔کتنوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا کرتا ہے؟؟ یہ سب جانے کیلئے کوئی کمیشن چنداں ضروری نہیں اور بنا بھی دیا جائے تو کس کے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ وہ اپنا سر کھپاتاپھرے۔ جبھی تو غفلت کا یہ عالم ہے کہ حکومتی سطح پر اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آتے ۔اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومتیں بدل جاتی ہیں ”پالیسی ”ایک سی رہتی ہے۔مانا سیلاب کسی ایک ملک کا مسئلہ ہرگز نہیں۔ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن وہاں اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے جو اقدامات کئے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں کبھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اس سے ہمارے صاحب اقتدار طبقے کی عوام دوستی کھل کر نمایاں ہوتی ہے۔
Pakistan Floods
دریاؤں اور نہروں کی بر وقت بھل صفائی (نئی نسل کے لئے یہ نام یقینا نیا ہو گا کہ عملی طور پر اب یہ محض لغت کا حصہ ہے۔ہمیں اپنے بچپن میں سرکاری ٹی وی پر یہ نام اتنی بار سننے کو ملتا تھا کہ آج بھی اس لفظ پر نسیان کی گرد نہیں جمی۔حالانکہ اس کا رواج ختم ہوئے زمانے بیت چکے ہیں) پشتوں اور بندوں کی مضبوطی، غیر قانونی زمیندارہ بندوں کے خاتمے ،پہلے سے موجود آبی ذخیروں کی گنجائش میں خاطر خواہ اضافے اور زمین کی” نشیبی جھولیاں” بھرنے کیلئے نئے ڈیمزکی زیادہ سے زیادہ تعمیراور سیلاب کی پیشگی اطلاعات اور معلومات کی ٹھیک ٹھیک اور بر وقت رسانی جیسے اقدامات سے سیلاب کے مضمرات میں بہت حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقوں اور بیٹ میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر ماڈل دیہات بنا کر بھی سیلاب کی تباہ کاریوںاور انسانی اموات میں بہت حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔اس سلسلے میں زرعی ماہرین کی رائے لیکر سیلابی خطرات کو یقینا قابل رشک حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود بھی اگر کچھ علاقے سیلاب کی نذر ہو جائیں تو اس میں بھی رحمت کا ایک حسین پہلوپنہاں ہے کہ سیلاب اپنے پیچھے صرف بربادی کے واقعات ہی نہیں چھوڑتا، زمین میں زرخیزی کی سوغات بھی تو چھوڑ جاتا ہے۔ بھارت دو سو بانوے نئے ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ایشیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
ناجانے ہم کیوں سوئے ہوئے ہیں ۔ہم میں ایسی کوئی تحریک کیوں جنم نہیں لے سکتی ؟ آخر کب تک ہمارے ہاں بے رحم سیاسی کھیل کی آڑ میں قومی نقصا نات ہوتے اور سانحات جنم لیتے رہیں گے؟اگر نیت نیک اور ارادے پختہ ہوں تو ان تمام بے وزن سیاست دانوں اور غیر مقبول سیاسی جماعتوں پر غالب آنا ہرگز دشوار نہیں جو اس ملک کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں لیکن ہمارا المیہ ملاحظہ ہو کہ ملک کی سب سے” بڑی ”سیاسی جماعت مسلم لیگ نے سندھ میں محض چند سیٹوں کے لالچ میں اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی قیمت پرچند غیر مقبول قوم پرست سندھی سیاست دانوں کے ہاتھ پر بیعت کر لی(اور حسن اتفاق دیکھیں کہ اسے وہ بھی دستیاب نہ ہوئیں)۔اس سے ہماری بڑی سیاسی جماعت کی سیاسی بصیرت اور ”درست” فیصلہ سازی کا بخوبی اندازہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعت عوامی بہبود کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے۔آج لاکھوں لوگ بے گھر، بے در اور بے آسرا زیر آسماں امداد کے منتظر ہیں۔گھر کی دوری سے کہیں زیادہ انہیں املاک کی نا بودی اور متوقع مالی پریشانی کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔ہمارے حکمرانوں کی جرات ملاحظہ ہو کہ احتجاج کیلئے ان کے منہ سے ایک جملہ تک اپنے روایتی دشمن کیلئے ادا نہیں ہوا۔ساری شبانیں دھرنے والوں کیلئے شعلے اگلنے میں مصروف ہیں۔سندھ ٹریٹی کی خلاف ورزی پر یہ خاموشی انکی حب الوطنی کی روشن دلیل ہے۔
امداد کے نام پر متاثرین کی دربدری بھی ہمیشہ کی طرح جاری ہے۔جہاں سنتے ہیں ”نام ” لکھے جا رہے ہیں اپنے اپنے شناختی کارڈ گرہ سے باندھ کر پہنچ جاتے ہیں۔امداد ملے نہ ملے نام ضرور لکھ لیا جاتا ہے۔اپنے لوگوں کی یہ حالت دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ایک جفاکش قوم کو ہمارے بادشاہوں نے بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے۔ہر دوسرے چوتھے سال یہ جھولیاں پھیلائے قطاروں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔کوئی ہے جو انکی داد رسی کر ے ۔کوئی ہے جو انکے دکھوں کا مداوا کرے۔ریاکارانہ نہیں ہمدردانہ انداز میں سر پر ہاتھ رکھے۔ان کے سر پر ہاتھ جن کے سر پر چھت نہیں ،آسمان کا شامیانہ تنا ہے۔خدا را امدادی سامان کی لوٹ مار کے مناظر دکھا کر انکی تذلیل نہ کیجئے۔جب تین تین دن انتظار کرانے کے بعد بھی خادم اعلی تشریف نہیں لائیں گے،جب انہیں کہا جائے گا کہ یہ امداد آپ کیلئے نہیں ہے، جب روٹی کے لقمے کیلئے انہیں ترسایا جائے گا تو ان کے پاس اس کے سوا اور کیا حل ہوگاکہ آگے بڑھ کر روٹی خود چھین لیں۔
ان لوگو ں کو اس حال تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں انکے اپنے فرمانروا ہیں ۔وہی فرمانروا جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جمع ہیں اور سوائے تقریروں کے جنہیں اور کچھ بھی نہیں آتا، کچھ بھی تو نہیں ۔اے کاش اتنی اخلاقی جرات تو ان میں ہوتی کہ سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آتے، اسی اجلاس میں اپنے خلاف ایک مذمتی قراد داد لاتے، قوم سے معافی مانگتے اور وعدہ کرتے کہ وہ اب کھبی بھی ڈیمز کی مخالفت نہیں کریں گے۔لیکن افسوس ”پارلیامنٹ ” کے تقدس کی قسمیں کھانے اور اس کو بچانے کیلئے ایک ہو جانے والے سیاست دانوں کے دل میں سیلاب سے تباہ حال قوم کیلئے سوائے لفظوں کے کچھ بھی نہیں۔ کھوکھلے، ریاکارانہ، عیارانہ لفظ ۔کسی نے سچ ہی تو کہا ہے۔
ہے ناخدا کا میری تباہی سے واسطہ میں جانتا ہوں نیت ِ دریا بری نہ تھی
Safder Hydri
تحریر: صفدر علی حیدری ای میل (sahydri_5@yahoo.com)