دمشق (جیوڈیسک) ان دنوں شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر عین العرب، جسے کرد زبان میں کوبانی کہتے ہیں، عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جہادی گروپ اسلامک سٹیٹ نے اس علاقے کے تیسرے شہر کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت کے خیال میں کوبانی کو آئی ایس کے قبضے سے بچانا اب مزید ممکن نہیں رہا ہے۔
اگر درحقیقت یہی صورتِ حال ہے تو کیا اس سے واشنگٹن حکومت کی اس علاقے پر فضائی حملوں کی حکمت عملی کی ناکامی کی نشاندہی ہوتی ہے؟ اس بارے میں خود سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی باراک اوباما پر ڈھکی چھپی تنقید کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے جنرل مارٹن ڈمپسی امریکی ٹیلی وڑن چینل اے بی سی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہیں کوبانی کے سقوط کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ کو واضح الفاظ میں کہا تھا کہ کوبانی کا تحفظ امریکی حکمت عملی کا ہدف نہیں ہے۔ واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے امور مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر جِم فلپس کا کہنا ہے کہ کوبانی سے متعلق اوباما کی حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔