تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر عید قربان آئی اور آ کے گزر گئی لاکھوں فرزندان توحید نے حج اکبر کا شر ف حاصل کیا پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی نہایت خشوع و خضوع سے کی گئی۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی عید قربان کہیں توبڑے جوش و جذبے سے منائی گئی اور کہیں ریوڑ پالنے والے قربانی کر نا تو درکنا ر قربانی کے گوشت کو بھی ترس گئے میری مراد پاک دھرتی کے ان اجڑے لوگوں سے ہے جن کی خوشیاں سیلا ب بہا کر لے گیااور وہ اپنے گھر میں ہی خانہ بدوشوں کی طرح خیموں میں زندگی کے ایا م کی تلخی کا گھونٹ پینے پر مجبور ہوگئے ہزاروں بیٹیاں اس عید پر بھی چوڑیوں کی کھنک سے محروم رہ گئیں، بچے کسی مسیحا کی رہ تکتے اپنے ہی گھروں کے ملبوں پر بیٹھے نئے کپڑوں کی آس لگائے آنکھیں وا کیے بیٹھے اپنے حاکموں کا راہ تکتے رہ گئے وہ جوان بیٹیاں جن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے ان کے والدین نے جو مال ومتاع اکٹھا کیا ہواتھاسب پانی کی منہ زور لہروں کی نظر ہو گیا۔
اٹھارہ ہزاری بند جسے تین بڑے بارودی دھماکوں سے اڑا کر جھنگ شہر کا بچایا گیا مگر اس سے ملحقہ سینکڑوںدیہاتوں کو دریا برد کر دیا گیا سب سے دل خراش المیہ یہ ہے کہ اب وہی لوگ جو کل تک اپنے گھروںمیں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے آج اپنے ہی گھروں کے ملبوں پر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پر سانِ حا ل نہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اب تک کوئی امداد نہیں پہنچی جو حکو مت کی طرف سے بھیجی گئی ہوبلکہ ہمیں ٹینٹ اور خیمے بھی چند غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے دیئے گئے ہیں اگر حکومت کی طرف سے کوئی امدادی سامان آتا بھی ہے تو وہ اتنی قلیل مقدار میں کہ لوگ اس کے حصول میں دھکم پیل میں ہی زخمی ہوجاتے ہیں چند لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں حکو مت نے امداد کے نام پر چیک دیئے جو تا حال کیش نہیں ہوسکے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حکومت کسی کی بھی ہوان کے فراہم کردہ چیک کثرت سے کیش نہیں ہوتے 1988ء سے لے کر 2014ء کے سیلا ب تک جتنی حکومتوں نے بھی متاثرین کو چیک دیئے وہ صرف چیک ہی رہے یا لوگ انہیں بار بار دیکھ کر چیک کرتے رہے کہ ہو سکتا ہے حکو مت ِ وقت کبھی ایسے چیک بھی دے ڈالے جو واقعی رقم بھی فراہم کرنے کازریعے بن سکیں۔
عوامی لیڈروں نے عوامی بھیڑ میں خالص عوامی سٹائل میں پانی میں کھڑا ہو کر تصاویر تو اتر وائیں اور پانی میں کھڑے سرکاری ماڈلنگ کرتے ہوئے تو دکھائی دیئے مگر ان متاثرین کی بحالی کے لیے ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔قسم بخدااس دھرتی کی ہر بیٹی کسی قیمت پر مریم نواز،بختاور زرداری،اور آصفہ زرداری سے کم نہیں اس عظیم دھرتی کی ہر بیٹی مندرجہ بالا تینوں بیٹیوں کی طرح قابل عزت و احترام ہیں پھر اُن کا مقدر مٹی کا ڈھیر کیوں ،اور اِن تینوں کا نصیب محلات کی آسائشیں کیوں۔ عید کے دن ادا س سے گھر میں ایک بیوہ غریب روتی ہے اس کا بچہ یہ پوچھ بیٹھا ہے عید بنگلوں میں ہی کیوں ہوتی ہے۔
Shahbaz Sharif
اس شعر کے ماخذپر زرا غور فرمائیں اور سیلاب کی تبا ہ کاریاں اپنے گھروںمیں محسوس کر تے ہوئے دیکھیں کہ کیا جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں ؟زرا حکمران اور امراء خود کو ضمیر کے آئینے کے رو برو لاکر سوچیں کہ کیا وہ دھرتی کی ہر بیٹی کو اپنی بیٹی اور ہر بچے کو اپنا بچہ تصور کرتے ہیں یقینا جواب نفی میں ہوگاکیونکہ حاکم اور محکوم میں فرق بھی تو رکھنا ہے نا۔ حدیث نبوی ہے کہ ”جو شخص کے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو(یعنی خلیفہ یا امیر) تو اللہ اس کا مقصد پورا نہیں کرے گاجب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے ” چاہے وہ عوامی نمائندہ ہویا سرکا ری افسر اُس وقت تک وہ رب اعلیٰ کی عدالت میں سرخرو نہیں ہوگاجب تک وہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور بجاآوری میں کوتاہی کر تا رہے گا۔خلیفہ ء دوئم حضرت عمر نے بھی اپنے دور خلا فت میں طرز حکمرانی کی مثال قائم کر تے ہوئے فرمایا تھاکہ اگرمیرے دورخلافت میں فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا رہ گیا تو بخدا قیامت کے دن میں اس کا جواب دہ ہونگا۔مگر ہمارے ہاں کی طرزحکمرانی کم ازکم میری عقل سے بالا تر ہے ہمیں دعویٰ مسلمانی بھی ہے اور طرز حکمرانی نہ تو مکمل طور پر اسلامی ہے اور نہ اقوام مغرب کی طرح دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک میں ہر شہری کو مساوی بنیادی حقوق حاصل ہیں۔
مگر ہمارے ہاں Categoriesہیں ۔غریب جیئے یا مرے اس سے ہمیں کیا لینا دینا ہمارے حکمرانوں کو چھینک بھی آجائے تو فورا ً علاج کے لیے لندن رونگی ہوجاتی ہے مگر غریب اور بالخصوص سیلا ب کی نذر ہوکے اجڑنے والے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوکے بھی علاج سے محروم رہ جاتے ہیں آپ پورے ملک میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیںکہ امداد کے نا م پر کتنی انسانی تذلیل رو نما ہورہی ہے کہیں اے ڈی پیز کے کیمپوں میں تین تین دن سے قطاریں بنائے انسانوں کا جمِ غفیر ملے گااور کہیں سیلاب زدگان اشیائے خوردونوش اور بنیادی ضروریات کی طلب میں کس قدر خجل ہو رہے ہیں اور وہ بھی بھو ک کے ستائے لٹے پٹے لوگ جب کسی امدادی سامان کے حصول کے لیے دھکم پیل کا شکار ہوکر زخمی ہوجاتے ہیں تو ان کا درد ہمارے اشرافیہ کو اپنے وجود میں کہیں محسوس نہیں ہوتا۔ بلکہ کئی جگہوں پر تو متاثرین پر پولیس کے شیر جوانوں نے لاٹھی چارج کا نہیں بلکہ چھتر چارج کا مظاہرہ بھی کر ڈالاکیا ان متاثرین کے ساتھ ایسا رویہ روارکھنا جائز ہے یا ان کی جلد از جلد بحالی ضروری ہے یا پھر ان لوگوں کا مقدر ایسا ہی ہونا چاہیے بقول محسن نقوی محسن غریب لوگ بھی تنکوں کاڈھیر ہیں ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے۔
ابھی تک تو یہ شعر سچ ہی دکھائی دے رہا ہے خدا کر ے کہ ہمارے حکمران حدیث نبوی کی روشنی میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرسکیں اور عدل فاروقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جانور کے بھوکا مرنے کا ذمہ دار خود کو ٹھہرا سکیں مگر ان میں یہ اخلاقی جرات آئے گی کب کیوں اور کیسے واللہ عالم۔