امریکی (جیوڈیسک) وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ شمالی شام کے شہر کوبانی میں صورتِ حال بدستور ’خطرناک‘ ہے۔ وہاں اسلامی عسکریت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور کردوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جس میں ایک ماہ کے دوران پانچ سو افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
چک ہیگل نے کہا کہ امریکی قیادت میں ہونے والے فضائی حملوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف پیش رفت ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی شہر کے مضافاتی علاقوں پر قابض ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ طویل المدت ہو گی۔
امریکی جنگی جہازوں نے دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں، جب کہ کرد جنگجو شہر کے قریب دفاعی اہمیت کی حامل ترک سرحد کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہیگل نے جنوبی امریکی ملک چلی میں بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم ان فضائی حملوں کی مدد سے دولتِ اسلامیہ کو پیچھے دھکیلنے کے لیے جو ممکن ہے وہ کر رہے ہیں۔
درحقیقت اس ضمن میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کوبانی میں ایک ماہ سے چھڑی جنگ میں کم از کم 553 افراد مارے جا چکے ہیں برطانیہ میں قائم شامی انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دولتِ اسلامیہ کے 298 جنگجو بھی شامل ہیں۔
شہر کا دفاع کرنے والے کرد جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ انھیں خود سے زیادہ طاقتور دشمن کا سامنا ہے۔ کوبانی کے ایک عہدے دار ادریس نسان نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہمارے پاس جنگجوؤں کی اچھی کمک موجود ہے، لیکن ان جنگجوؤں کے پاس اسلحہ نہیں ہے، اور اسلحے کے بغیر وہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتے۔‘ ترکی خاصے عرصے سے کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑتا رہا ہے، اس لیے اس نے کسی یک طرفہ زمینی کارروائی کے امکان کو رد کر دیا ہے۔
چک ہیگل نے کہا کہ امریکہ نے ترک حکام کے ساتھ اعتدال پسند کرد باغیوں کو دولتِ اسلامیہ کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ اور سازوسامان فراہم کرنے کے بات چیت میں ’خاصی پیش رفت‘ کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئندہ ہفتوں میں امریکی فوجی ٹیمیں ترکی کے ساتھ مزید بات چیت کریں گی۔ اسی دوران عراق میں لڑائی جاری ہے جہاں دولتِ اسلامیہ نے ملک کے شمال میں بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔