ماہِ محرم کا آغاز ہوتے ہی ہر طرف امام حسین علیہ سلام اور شہدائے کربلا کی عقیدت و احترام کے طور پر خصوصی اہتمام کئے جاتے ہیں۔ ٹی۔وی چینلز پر بھی خصوصی نشریات پیش کی جاتی ہیں جبکہ اخبارات میں بھی میدان کربلا میں پیش آنے والے حالات و واقعات کے بارے میں خصوصی اشاعت ہوتی ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ١٨ ذوالحجہ ایسے خاموشی سے گزر جاتا ہے کہ کسی کو خبر تک نہیںکہ یہ وہ دن ہے جس میں پیش آنے والے سانحے کی وجہ سے ہی مسلمانوں میں پھوٹ پڑی، ان کی گروہ بندی شروع ہوئی اور جنگِ جمل ٣٦ھ ، جنگ صفین ٣٧ھ، حضرت علی کی شہادت، مکہ پر فوج کشی اور واقعہ کربلا٦١ھ جیسے المیے پیش آئے اور مسلمانوں کی تلواریں اپنے مسلمان بھائیوںکے خون سے آلودہ ہوئیں۔
وہ مسلمان جو احوت، مساوات، عدل و انصاف کی عظیم اور لازوال مثالیں قائم کر کے قیصروکسریٰ جیسی بڑی ریاستوں کو سرنگوں کر چکے تھے،وہ مسلمان جو اپنے دین کی سر بلندی کی خاطر اپنے مال و جان و اولاد کی پرواہ نہ کرتے تھے ان میں فرقہ بندیاں پیدا ہوئیں جو آج تک ختم نہ ہو سکیں۔ حضرت عثمان کا نام عثمان بن عفان اور لقب ذوالنورین تھا۔ ان کی ولادت واقعہ فیل سے چھ برس بعد ہوئی۔ آپ حضرت ابو بکر صدیقکی رہنمائی سے مسلمان ہوئے اور غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ حضرت عمر کی وفات کے بعد آپ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ٢٤ھ میں منتخب ہوئے۔ آپ کی خلافت ١٢ دن کم١٢سال ٤٤لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر قائم رہی۔
(خلفائے راشدین کی بیگمات و صاحبزادیاں، مصنفہ مسز بشریٰ بیگ ص١٣٣) حضرت عثمان کی کل آمدنی کا ذریعہ تجارت تھا۔آپ ہر موقع پر مسلمانوں کی کچھ نہ کچھ مدد کرتے تھے۔ غزوہ تبوک پر رسول اللہ ۖ نے ان کے لیے فرمایا۔ ”آج کے بعد عثمان نیکی کریں گے تو اللہ اسے بھی نیکی بنا دے گا۔”حضرت عثمان مسلمانوں، غریبوں یتیموں اور اپنے رشتہ داروں کے غم خوار تھے اور انکی ہر وقت مدد کرتے تھے مگر چند لوگوں نے انکی کینہ پروری کو غلط رنگ دیا۔حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہر طرف امن و امان تھا آپ کی نرم طبیعت نے لوگوں کو بہت آرام دیا جس سے بعض لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف فتنہ پیدا کیا۔
یہودیوں کی ایک سازش کے تحت ایک یہودی عبداللہ بن شبا نے بظاہر اسلام قبول کیا مگر وہ اسلام سے بغض رکھتا تھااس نے مختلف علاقوں میں جا کے لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور من گھڑت کہانیاں حضرت عثمان کے ظلم کی لوگوں کو سنانے لگا۔ کچھ لوگ اسکی باتوں میں آگئے اور دن بدن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس کے علاوہ جو لوگ خلافت کو اہل بیت کا حق سمجھتے تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور سلطنت کے نظام میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیوں کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ حضرت عثمان نرم طبع اور مصلحت پسند تھے انہوں نے ان سبائیوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنی ریشہ دوائیوں سے باز نہ آئے اور حضرت عثمان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے لگے۔
حضرت عثمان کی خلافت کے بارہویں سال یہ لوگ مدینہ کے گرد و نواح میں جمع ہوئے حضرت عثمان نے انہیں مسجد نبوی میں بلایا اور ان باغیوں سے وجہ پوچھی جس پر انہوں نے حضرت عثمان پر مختلف قسم کے الزامات لگائے حضرت عثمان ان تمام الزامات کا مدلل جواب دیتے رہے مگر انہیں تسلی نہ ہوئی۔ حضرت علی نے بھی ان باغیوں کو سمجھایا مگر ان کے موئقف میں تغیر پیدا نہ ہوا۔ اگلے روز انہوں نے حضرت عثمان کے گھر کو گھیرے میں لے لیا اور تمام اہل مدینہ کو دھمکی دی اور یہ اعلان کیا کہ جو مقابلے پر نہیں آئے گا وہ امان میں ہو گا۔
Hazrat Usman
محاصرے کے دوران بھی حضرت عثمان امامت کرتے رہے اور اہل مدینہ خاموش تماشائی بنے رھے۔ اب بلائیوں نے حضرت عثمان کو مسجد میں بھی آنے سے روک دیا دیگر صحابہ نے بلوائیوں کے خلاف جنگ کی اجازت مانگی مگر حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہۖ کو فرماتے سنا ہے کہ ” مسلمان کی تلوار ایک مرتبہ جب مسلمان کے خلاف میان سے نکلی تو کبھی واپس نہ جائے گی۔” اس لیے حضرت عثمان نے اپنے غلاموں سے بھی فرمایاکہ ” جو میرے دفاع میں نہیں لڑے گا وہ آزاد ہو گا۔”
حضرت عثمان سے زیادہ مظلوم کون ہو گا جنہوں نے اپنا دفاع بھی نہیں کیا جبکہ ٤٠ دن تک ان کے گھر کے گرد محاصرہ رہا یہاں تک کہ ان ظالموںنے حضرت عثمان پر پانی بھی بند کر دیا وہ ”بہرومہ” جسے آپ نے ایک یہودی کو منہ مانگی قیمت دے کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا اسی کا پانی امیر المومنین کے لیے بند کر دیا گیا مگر وہ خاموش رہے اور کوئی مزمت نہ کی۔ حضرت عثمان آخری خطبہ دیا اور فرمایا۔ ”یاد رکھو اگر تم نے مجھے آج قتل کر دیا تو ایک ساتھ نماز نہ پڑھ سکو گے نہ جہاد کر سکو گے۔” (تاریح اسلام، امتیاز پراچہ،ص ٣٢٢) حضرت عثمان کو یقین ہو گیا تھا کہ باغی اپنی شرارت کو حتمی شکل دے کہ ہی دم لیں گے۔ آپ نے مسلمانوں کو یاد دلایا انہوں نے ہی مسجد نبوی کے لیے جگہ تنگ ہونے کی صورت میں خطہ زمین خرید کر وقف کیااور ”بہررومہ” بھی مسلمانوں کے لیے وقف کیا۔ اس کے باوجود مسلمان آج اسی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور اسی کنویں کا پانی آپ پر بند کرتے ہیں۔
آپ کا خطبہ سن کر مسلمانوں کی گردنیں شرم سے جھک گئی لیکن بلائی دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھر گھس گئے اور خلافت سے معزولی کا مطالبہ کیا جسے آپ نے منظور نہ کیا۔ حضرت عثمان اس وقت قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے جب انہوں نے آپ پر حملہ کیا۔ آپ کی بیوی حضرت نائلہ آپ کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں مگر ان کی بھی تین انگلیاں تلوار کے وار سے کٹ گئیں بلوائیوں نے آپ کو شہید کر دیا آپ اس دن روزے سے تھے۔ آپ کے خون کا پہلا قطرہ قرآن پاک پر گرا۔ آپ کی عمر مبارک٨٢ سال تھی اور آپ کو١٨ ذوالحجہ ٣٥ھ میں مدینہ میں شہید کیا گیا۔
حضرت عثمان سے زیادہ مظلومانہ شہادت کسی کی نہیں آپ٤٠ دن کی بھوک پیاس کے بعد بلائیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔آپ کی لاش تین دن تک بے گور و کفن رہی۔ شہادت کے بعد آپ کے منہ پر طمانچہ مارا گیا۔ بلوائیوں نے آپ کے جنازے پر پھتر مارے۔ چند صحابہ نے ہمت کر کہ آپ کی نعش کو جنت البقیع میں دفن کیا۔ حضرت علی، حضرت زید بن ثابت، حضرت طلحہ اور حضرت کعب بن مالک شریک جنازہ تھے۔حضرت طبیر بن مطم نے نماز جنازہ پڑھائی۔(تاریح طبری ج سوئم ص٥٣٢) آپ کی شہادت سے مسلمانوں کے ہوش حواس گم ہو گئے یہ حضرت عثمان کی شہادت نہ تھی بلکہ اس سے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔
Life
سعد بن زید نے فرمایا ”جس دن حضرت عثمان شہید ہوئے اسی روز میری عقل زائل ہو گئی اور مجھے اپنی زندگی بری لگنے لگی۔” حضرت عثمان کی شہادت پر زید بن ثابت سارا دن روتے رہے۔ اس طرح عثمان کو سفاکانہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کا غم کرنا اسے یاد رکھنا اتنا ہی لازمی ہے جتنا کہ شہادت نوسہء رسولۖ کا غم کیا جاتا ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں اسے یاد کیا جاتا ہے۔ میں نے یہ تمام واقعات تاریح اسلام کی مستند کتب سے مطالعہ کر کے تحریر کئے ہیں اور اس کے علاوہ اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی پرینسیپل گورنمنٹ شب اونرز کالج سے حاصل شدہ معلومات سے بھی استفادہ حاصل کیا اور مبالغہ آرائی سے کام نہیںلیا تاکہ اصل واقعات ہی لوگوں تک پہنچ سکیں۔