لاقانونیت سے ملک کے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔جب لاقانونیت بڑھتی ہے تو انسانوں کی زندگی اجیرن بن جاتے ہیں اور معاشرہ میں جنگلی ماحول بر پا ہوجاتا ہے۔ اگر اسی معاشرہ کیلئے کوئی نظام عدل نہ ہو تو اسے انسانوں کے معاشرہ کہلانا ظلم ہے۔ اس کے لئے کوئی نظام عدل ہونا ضروری ہے۔ نظام عدل انسانی زندگی کو حیوانیت کے دائرے سے نکال کر انسانیت کے اعلیٰ مقام پرفائز کرتا ہے ورنہ حیوان بھی طاقتور ہونے کی صورت میں شاندار زندگی بسر کرتے ہیں ۔عمر کے آخری دنوں میں جب جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تب طاقت بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ پھر جنگل کے قانون کے مطابق شاندار جوانی بسر کرنے والے حیوان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو کمزوروں کے ساتھ جوانی میں پیش آتا ہے۔انسانی معاشرے میں عدل ہی طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزور کوبھی عمر کے ہر حصے میں جینے کا مکمل حق دیتا ہے۔اگر عدل کو انسانی معاشرہ سے نکال دیا جائے تو پھر انسانی بستیاں جنگل سے بھی زیادہ خطرناک اور خونخوار ہوجاتی ہیں۔
کیونکہ حیوانیت میں طاقتور کے کمزور (بوڑھے )ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے جبکہ انسان اپنے حریف کو کمزور کرنے کے طریقے جانتا ہے ۔انسان کی ترقی اور کامیاب زندگی کا دارومدار صرف اور صرف اعلیٰ درجہ نظام عدل کے قیام کے ساتھ منسلک ہے ۔جہاں عدل نایاب ہوجائے وہاں حقوق مانگنے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں جبکہ فرائض ادا کرنے والا کہیں نہیں ملتا۔آج ترقی یافتہ ممالک میں انسانی حقوق کی حمائت میں کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں جو نظام عدل میں خامیوں کا ثبوت ہے۔انسانی معاشرہ اقتصادی ترقی کے باوجود اُونچ نیچ میٹا دینے والے نظام عدل کے بغیر ترقی یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں بن سکتا۔عدل کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے فرائض اس طرح ادا کرئے کہ کسی کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تحریک چلانا تو کیا آواز بھی اُٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔اسلام ایسے نظام عدل کا حامی ہے جس میں عادل حقائق اور شواہد کی روشنی میں مظلوم کے حقوق کا تحفظ کرے بغیر کسی سفارش و رشوت اور خوف کے ۔اس کائنات کا سب سے بڑا عادل و حاکم خود خالق کائنات ہے۔
جو ساری کائنات کا نظام پورے عدل کے ساتھ چلارہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعد مسلمان حاکم اس زمین پر عدل و انصاف کا ذمہ دار ہے ۔ کیونکہ اس کائنات پر اُول حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اس لئے انسان صرف اللہ تعالیٰ کے احکا مات پر عمل کے ذریعے ہی مخلوق کو عدل فراہم کرسکتا ہے۔ قانون وانصاف سے متعلق کیساتھ اکثر منسلک کی جانے والی ایک تشبیہہ جو ترازو کو خبر وانصاف کے مابین پیمانے کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ قانون دراصل اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے کہ جس کو کسی ادارے (عموما حکومت) کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے اور اس کو تضبیط کرنے کیلئے نافذ کیا جاتا ہے اور اسی ہی پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں کے دارومدار ہوتا ہے۔
چمن شہر میں نادرا آفس میں بیٹھے ہوئے عملہ کے من مانیاں کے وجہ سے عوام نے شناختی کارڈ بنوانا چھوڑ دیا ہے۔ چمن نادرا نے لاقانونیت کے انتہا ء کردی ہے۔ موجودہ نادرا آفیسران چمن کے عوام کو بے جا تنگ اور مشکلات کھڑے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چمن عوام بہت مشکلات کے سامنا ہیں اور بہت سے شہریوں نے ان کے خلاف عدالتوں میں کیسیں دائر کیں ہیں۔اسی طرح چمن کے شہری ایکشن کمیٹی کے علاوہ سیاسی پارٹیوں ناور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے احتجاج کئے ہیں ۔لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ حکومت پھر بھی عوام دشمن نادرا عملہ کے پشت پناہی کرتے ہیں ۔ جو انسانی حقوق کیخلاف ورزی قراردیتے ہیں ۔
شہر چمن میں نو لاکھ آبادی پر مشتمل شہر کیلئے صرف ایک ہی نادرا آفس ہے جسمیں امیر اور بااثر لوگوں کیلئے سہولیات اور آسانیاں میسر ہیں لیکن غریب طبقہ افراد کیلئے مشکلات ہی مشکلات بنائے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چمن میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول کے سلسلے میں غریب عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ نادرا کے عملہ درخواست گزاروں کو جان بوجھ کر تنگ کرتے ہیں اور یہ لوگ اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ انہیں کسی باز پرس کی پرواہ نہیں کاش قائد اعظم محمدعلی جناح کے اس قول کی بھی خاطر میں لاتے کہ ۔کام، کام اور کام ،، مگر یہاں تو آرے کا آرا ہی بگڑا ہوا ہے اور دفتر میں بھی جائیں وہاں کوفت ہی کوفت ہیں ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اپنے عوام کیلئے شناختی کارڈ ایک سہولت فراہم کی ہے لیکن موجودہ نادرا عملہ کی بدولت یہ سہولت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ سہولت نہیں عذاب بن گیا۔
جسکا ایک ثبوت راقم الحروف کے تین، چار اور پانچ سال بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے درخواست تھی۔جو کوائف تین مہینوں میں برابر ہوئے۔ جب میں نے نادرا چمن کے ایک اہلکار سے رابطہ کیا کہ مجھے تین، چار اور پانچ سال بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے درخواست دینی ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے بتا یا کہ بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ میونسپل کمیٹی چمن سے بنواکر پھر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ضلع قلعہ عبداللہ چمن سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ فارم بنواکر بچوں کے والدین کے اصل شناختی کارڈز اور لوکل سرٹیفیکیٹس ساتھ لاکرنادرا آجائے۔ ایک مہینے میں برتھ سرٹیفیکیٹ بنائے اور پھر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ضلع قلعہ عبداللہ چمن سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ فارم بنوانے میں بھی اٹھارہ دن تک انتظار کرکے بنواکر نادرا آفس چمن پہنچے ۔
وہاں لوگوں کے بہت رش دیکھا اور غریبوں نے بتایا کہ ہمین ٹوکن ھفتوں میں نہیں ملتے بلکہ بااثر اور امیر لوگوں کو یکدم ٹوکن مل جاتے ہیں ۔ جب میں نے ٹوکن حاصل کر کے نادرا آفیسر محمد امیر ناصر صاحب سے ملے ۔ انہوں نے اپنے شہنشاہیت دہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں 1974 کا ثبوت چاہئے۔میں نے اخلاق سے پوچھا کہ کہ جناب یہ بچوں کے رجسٹریشن کرانی ہے ۔ جو تین، چار اور پانچ سال بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے درخواست ہے لیکن نوجوانوں کے شناختی کارڈز بنوانے نہیں ۔ جب ہم نے نادرا کے ویب سائیٹ پر بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے Requirments دیکھی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے جب دس سال سے زائد بچوں کے سکول یا میونسپل کمیٹی سے برتھ سرٹیفیکیٹ اور دس سال سے کم بچوں کیلئے برتھ سرٹیفیکیٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اسکے ساتھ صرف والدین کے شناختی کارڈز سے بچوں کی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن میں نے تین، چار اور پانچ سال بچوں کے CRC بچوں کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کیلئے (١) میونسپل کمیٹی چمن سے بنائے گئے برتھ سرٹیفیکیٹس (٢) ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ضلع قلعہ عبداللہ چمن سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ فارم (٣) والدین کے پرانا اور نئے شناختی کارڈز (٤) والدین کے لوکل سرٹیفیکیٹس (٥) دادا اور دادی کے اصل کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز وغیرہ نہین مانتے ہیں ہمیں 1974 کے شناختی کارڈز لے آئے۔ورنہ میں آپ کے فارم جمع نہیں ہونگے۔ پھر نادرا فارم تحصیلدار چمن سے اسی دن تصدیق کراکر اگلا دن 1978 میں بنے ہوئے اپنے ماں کے پرانا شناختی کارڈ کی ساتھ دیگر دستاویزات بھی ساتھ لائے لیکن پھر بھی ایک ہفتہ تک میرے جمع نہیں ہوسکا۔
Pakistan Muslim League (N)
جب نادرا آفس چمن میں فارمز جمع کرنے والے آفیسر فضل الرحمان صاحب کے پاس جاتے تو وہ نادرا فارم جمع نہیں کرتے تھے۔ جب نادرا آفیسر امیر ناصر سے پوچھاگیا کہ آپ فارم جمع کیوں نہیں کرواتے تو جواب میں کہا کہ آپ نے میرے ساتھ دلائل کیوں کہے۔ اگر ابھی میں چاہوں آپ کا شناختی کارڈ دس سال کیلئے بلاک کرسکتا ہوں۔ جو کبھی آپ اسے کھولوا نہیں سکتے۔ میں معذرت کہہ کر فارم جمع کروائے۔ اب بھی خدشہ ہے کہ اسی فارم کو EXPIRED نام دیکر ضائع کئے جائیں گے۔ نادرا آفس چمن میں کھڑے ہوئے لوگوں میں اکثر وہ لوگ تھے جن کے فارم EXPIRED کئے جاچکے تھے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنماء اور چمن لوکل کمیٹی کے ممبرمطیع اللہ اچکزئی نے راقم الحروف کو بتایا کہ موجودہ نادرا آفیسران چمن کے عوام کو بے جا تنگ اور مشکلات کھڑے کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے چمن عوام بہت مشکلات کے سامنا ہیں اور بہت سے شہریوں نے ان کے خلاف عدالتوں میں کیسیں دائر کیں ہیں۔اسی طرح چمن کے شہری ایکشن کمیٹی کے علاوہ سیاسی پارٹیوں ناور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے احتجاج کئے ہیں ۔لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ حکومت پھر بھی عوام دشمن نادرا عملہ کے پشت پناہی کرتے ہیں ۔ جو انسانی حقوق کیخلاف ورزی قراردیتے ہیں۔
نادرا کے 2013 پالیسی میں فارم کے تصدیق Verefication شق ایک اچھا شق ہے جس سے جعلی تصدیق کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن اس سے غریب طبقہ افراد کیلئے مزید مشکلات کھڑی کردی ہے۔ جب نادرا آفس چمن سے شہریوں کے فارمز تصدیق کیلئے کچہریاں بھیجے جاتے ہیں ۔ وہاں امیر طبقہ اور بااثر سیاسی لوگوں کے فارم بروقت تصدیق کرکے جلد واپس نادرا کو بھیجے جاتے ہیں لیکن غریبوں کے فارمز تصدیق کیلئے کچہریاں میں تصدیق کے انتظار میں پڑے رہ کر مقررہ وقت پر تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کے فارمز مدت میعاد Expired ختم ہونے کے شکار ہوجاتے ہیں۔ نادرا آفس کی جانب سے اسے دوبارہ فارم بمعہ دستاویزات و تصدیقات جمع کرانے کی ہدایات دئیے جاتے ہیں ۔ جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں ۔ اس مسئلے پر نادرا کا غور کرنا لازمی اور ضروری بن گیا ہے۔ نادرا میں غریب اور امیر طبقاتی نظام کے خاتمہ ضروری ہے۔
شہر چمن میں نو لاکھ آبادی پر مشتمل شہر کیلئے صرف ایک ہی نادرا آفس ہے جسمیں امیر اور بااثر لوگوں کیلئے سہولیات اور آسانیاں میسر ہیں لیکن غریب طبقہ افراد کیلئے مشکلات ہی مشکلات بنائے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چمن میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول کے سلسلے میں غریب عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ نادرا کے عملہ درخواست گزاروں کو جان بوجھ کر تنگ کرتے ہیں اور یہ لوگ اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ انہیں کسی باز پرس کی پرواہ نہیں کاش قائد اعظم محمدعلی جناح کے اس قول کی بھی خاطر میں لاتے کہ ۔کام، کام اور کام ،، مگر یہاں تو آرے کا آرا ہی بگڑا ہوا ہے اور دفتر میں بھی جائیں وہاں کوفت ہی کوفت ہیں ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اپنے عوام کیلئے شناختی کارڈ ایک سہولت فراہم کی ہے لیکن موجودہ نادرا عملہ کی بدولت یہ سہولت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ سہولت نہیں عذاب بن گیا۔
حافظ محمدصدیق مدنی نے نادرا کے اعلیٰ حکام باالخصوص ڈائریکٹر جنرل نادرا اسلام آباد، ڈائریکٹر جنرل نادراکوئٹہ بلوچستان، وفاقی محتسب اسلام آباد، صوبائی محتسب کوئٹہ بلوچستان اور ضلع قلعہ عبداللہ چمن کے ضلعی انتظامیہ سے پر زور اپیل کی کہ وہ چمن کے موجودہ نادراآفیسر اور دیگر عملہ کے غیر انسانی رویہ سے چمن عوام کو بچانے کیلئے اسے بالفور ٹرانسفر کیا جائے ۔ اور انکے جگہ ایک ایماندار اور عوام دوست عملہ کو تعینات کئے جائیں۔
Mohammad Siddiq Madani
تحریر : محمد صدیق مدنی۔ چمن 03337752771 siddiq_madani@yahoo.com