تحریر: ممتاز اعوان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو ڈیڑھ برس کا عرصہ ہونے کو ہے، اس سے قبل بھی پنجاب میں ”ن” لیگ کی ہی حکومت تھی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب میں ترقیاتی کام کروانے اور عوام کو ریلیف دینے کی تو ٹھان رکھی ہے لیکن انکے مشیر شاید ان تک صحیح رپورٹ، یا اپنی کارکردگی نہیں پہنچاتے کیونکہ لاہور میں تو ترقیاتی کام سب نظر آرہے ہیں،میٹرو بس کا منصوبہ میاں شہباز شریف نے ‘مخالفین” کی تنقید کے باوجود بروقت مکمل کروایا جس سے لاہوریئے مستفید ہو رہے ہیں۔
ڈینگی کے خلاف بھی انہوں نے بھرپور قسم کی ہنگامی مہم چلائی حتیٰ کی اتوار کو بھی سرکاری ملازمین کو دفاتر میں ہی رہنا پڑتا، اگر لاہور سے باہر نکلا جائے تو دیگر شہروں میں بھی بلا شبہ ترقیاتی کام ہوئے، اب میاں نواز شریف صاحب وزیر اعظم ہیں،مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے،عوام کو بہتر ریلیف ملنا چاہئے، اگرچہ کچھ مسائل ایسے ہیں جو اس حکومت کو ورثے میں ملے ہیں، مہنگائی، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، ان کو حل کر نے کے لئے بھی حکومت اخلاص کے ساتھ کام کر رہی ہے، مسلم لیگ(ن) نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی بہتری کے لیئے ٹھوس اقدامات کیئے۔پنجاب حکومت کے فلاحی پروگراموں ترقیاتی سکیموں سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ حکومت کی ٹھوس معاشی پالیسیوں سے بیروزگاری ،غربت کے اندھیرے دور ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے دوراقتدارمیں عوام اور بالخصوص نوجوان اپنی صلاحیتوں کے اظہارمیں پوری طرح آزاد ہیں۔ خادم پنجاب میاں شہبازشریف عوام کوریلیف کی فراہمی کے معاملے میں کسی قسم کی غفلت برداشت نہیں کرتے۔دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں امن وامان کی بہترین صورتحال اور توانائی بحران پر قابو کاکریڈٹ خادم پنجاب میاں شہبازشریف کوجاتا ہے۔ لاہور تو پچھلے پانچ سالوں میں بدل چکا مگرضلع چکوال کے بارڈر پر تحصیل لاوہ کے گا?ں ”خوشحال گڑھ” کی حالت نہ بدل سکی،عوامی نمائندے انتخابات کے موسم میں جنازوں اور فاتحہ خوانی کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی مرے اور ہم وہاں پہنچیں مگر اقتدار ملنے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں۔
جیسے”گدھے” کے سر سے سینگ،ماضی میں ہونے والے انتخابات میں ن لیگ یہاں سے جیت جاتی تھی ایک بڑا دھڑا سردار منصور حیات ٹمن کے ساتھ بھی تھا،سابق ضلع ناظم سردار غلام عباس بھی اس علاقے سے ماضی میں نہیں ہارے،یونین ناظمین کوٹگلہ ملک اسد اور عظمت ملک بھی یہاں سے جیتے مگر کہتے ہیں کہ”خوشحال گڑھ” خدا سے چھپا ہوا ہے ‘نعوذ بااللہ” کے مصداق عوامی نمائندوں کی نظروں سے یہ علاقہ اوجھل ہو جاتا ہے جس کی آبادی 10ہزار کے لگ بھگ ہے اور 2008کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد14سو کے لگ بھگ تھی اور 2013کے الیکشن میں 2ہزار کے قریب تھے اور مئی2013کے الیکشن میں یہاں کے مکینوں نے مشترکہ طور پر مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو ووٹ دیئے اور مسلم لیگ(ن) کے دونوں امیدوار یہاں سے جیتے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی ”بجلی” نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں یہاں کے مکین آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ”لالٹین” پر گزارہ کر رہے ہیں، خوشحال گڑھ کے ساتھ مسلسل زیادتیاں کی جا رہی ہیں خوشحال گڑھ پہلے ضلع اٹک تحصیل جنڈ میں شامل تھا،جب ضلع چکوال بنا تو اس علاقے کو اٹک کے ساتھ ہی رکھا گیا۔
مقامی عمائدین نے بڑی جدوجہد کے بعد اس علاقے کو ضلع چکوال میں شامل کروایا اور یوں یہ تحصیل تلہ گنگ میں آگیا اب جمہوری حکومت نے اس علاقے کو تحصیل لاوہ کے ساتھ ملا دیا،جس پرعوامی حلقوں نے شدید احتجاج کیا کہ خوشحال گڑھ کو تلہ گنگ کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے ،کیونکہ تلہ گنگ ہمیں نزدیک ہے لاوہ تحصیل میں خوشحال گڑھ کی شمولیت ہمیں کسی صورت منظور نہیں اور یہ خوشحال گڑھ کی عوام کا واحد متفقہ فیصلہ ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں، ماضی میں تمام عوامی نمائندوں نے اس علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا 2008کے انتخابات میں سردار فیض ٹمن کو ووٹ دیئے تو انہوں نے ڈھوک شمار تک بجلی دی جس کے بعد وہ مستعفی ہو گئے اور یہ سلسلہ وہیں رک گیا آگے نہ بڑھ سکا،اس سے قبل سردار منصور حیات ٹمن،سردار ممتاز ٹمن، سمیت تمام سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی،ضلع و تحصیل ناظمین ،یونین کونسل کوٹگلہ کے ناظمین و نائب ناظمین نے خوشحال گڑھ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ،جب خوشحال گڑھ ضلع اٹک میں شامل تھا تب یہاں ایک سرکاری ڈسپنسری بنائی گئی جس میں عملہ تعینات کیا گیا مگر چکوال میں یہ علاقہ آتے ہی ڈسپنسری کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی ایک بنگلے کی طرز پر بنائی گئی ڈسپنسری کی حالت ”بھوت بنگلہ” بن چکی ہے جہاں ایک اکیلا ڈاکٹر ڈیوٹی کر رہا ہے۔
Elections
گزشتہ حکومتوں نے یہاں صحت کے حوالہ سے عوام کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو مریض کو تلہ گنگ لے کر جانا پڑتا ہے مگر سڑکیں پختہ نہ ہونے کی وجہ سے مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے، خوشحال گڑھ سے تلہ گنگ براستہ ملتان خورد کا سفر کا دورانیہ کم ہے مگر ملتان خورد تک کچی سڑک ہے اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو یہ راستے بند ہو جاتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت نے مرکز میں پانچ سال پورے کئے اراکین اسمبلی نے اپنے اثاثے دگنے کر لئے مگر یہاں کی عوام کو صحت کے بعد تعلیم کے حوالہ سے بھی کوئی سہولت نہیں دی گئی گرلز سکول کی بلڈنگ مکمل طور پر محکمے کی بے حسی سے تباہ ہو چکی ہے، بوائز سکول میں ہی طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور بوائز سکول کی حالت یہ ہے محکمے نے فرنیچر تک مہیا نہیں کیا سخت سردی و گرمی اور بارش کے موسم میں بھی طلبائ طالبات زمین پر بیٹھ کر ہی زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیںاور اگر سکول میں کوئی افسر یا مہمان آ جائے تو گا?ں کے گھروں سے فرنیچر منگوایا جاتا ہے تا کہ کم از کم”عزت” تو رہ جائے۔عوامی حلقوں نے یہ بھی بتایاکہ ہم نے سب کو آزمایا ہر امیدوار کو ووٹ دیئے ہر ایک سے امیدیں وابستہ کیںمگرالیکشن کے دنوں میں دورے اور وعدے کرنے والے اگر عملی کام نہیں کروائیں گے تو یہاں کی عوام انتخابات والے دن پولنگ کا رخ نہیں کرے گی یا پھر کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کیا جاے گا جو کم از کم پہلے مسلط نہ ہوا ہو اور اس نے ہمارے ساتھ زیادتی نہ کی ہو،حیران کن طور پر خوشحال گڑھ ضلع چکوال کا ”کرائم فری” علاقہ ہے چوری ،ڈکیتی یہا ں کبھی نہیں ہوئی ،پر امن لوگ ہیں۔
منشیات اور اس کے چاہنے والوں کا یہاں نام و نشان نہیں ہے اوریہاں کے رہنے والے علاقہ غیر میں نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے علاقے میں جہاں امن ہی امن ہے اور ہر الیکشن میں عوامی نمائندوں کو ووٹ بھی دیئے جاتے ہیں مگرعوامی نمائندے نمائندگی کا حق ادا نہیں کرتے۔یہ پنجاب کا وہ علاقہ ہے جہاں گرمی کے موسم میں برف کی ضرورت پڑتی ہے تو یہاں کی عوام کو برف پچاس روپے کلو ملتی ہے اور کم از کم تین کلو لانی پڑتی ہے کیونکہ ایک سے ڈیڑھ کلو برف تو راستے میں ہی ضائع ہو جاتی ہے جبکہ لانے کے لئے پانچ سے چھ کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ تین کلو برف تین سو روپے میں ملتی ہے۔خوشحال گڑھ کے لوگوں کے مسائل ہی مسائل ہیں مگر ان کو دور کرنے والا نہیں ہے سوئی گیس یہاں سے پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزر رہی ہے مگر یہاں کی عوام آج بھی سلنڈر یا پھر لکڑیاں جلانے پر مجبور ہے۔”خوشحال گڑھ” کے مکین وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید انکے مسائل حل ہو جائیں، مقامی نمائندے تو صرف آپس کی لڑائیوں میں”مگن” رہتے ہیں، حکام بالا کو اس علاقے کی طرف بھی دیکھنا چاہئے جہاں کے مکین 2014 میں بھی لالٹین جلا کر گزارا کر رہے ہیں۔