تحریر : ایم آر ملک ماڈل ٹاؤن، ریڈ زون، ملتان ریاستی درندگی ہے جو تمام حدیں عبور کرتی چلی جارہی ہے عمران اور قادری نے تحمل اور برداشت تک چھین لی ہے سانحہ ملتان اپنے وجود کی تلاش میں نکلے عوام میں عدم تحفظ پھیلانے ،خوف پیدا کرنے کی ناکام اور دانستہ سازش ہے آزادی مارچ کے متوالوں کی لاشیں گرانے کیلئے باقاعدہ پلاننگ ہوئی جس کا افتتاح گوجرانوالہ کے گلو بٹ پومی بٹ سے شیخ رشید کے خلاف اُس ہوٹل کے باہر کرایا گیا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے چھ میں سے چار گیٹ مقفل رکھے گئے جس کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جلسہ کا اختتام ہوتے ہی لائٹس بند کر دی گئیں اور دو گیٹوں کو آدھا کھولا گیا جب عوام سیلاب کی طرح نکلے تواُنہیں اچانک روکنے کیلئے پانی کی بوچھاڑ ماری گئی جن افراد کے قدم اچانک رکے پیچھے سے آنے والے ریلے کی شدت سے وہ پائوں تلے کچلے گئے اور اس طرح یہ پلاننگ کامیاب ٹھہری بلاول اکیلے کیلئے ساڑھے سات سو پولیس والے پروٹوکول پر کمر بستہ اور تحریک انصاف کے لاکھوں عوام کی جلسہ کیلئے محض 1400اہلکار ،نہیں یہ دو نمبری اب نہیں چلے گی
برسر اقتدار اشرافیہ مستقبل سے مذاق کر رہی ہے شخصی اقتدار کی وکٹ پر کھڑی کسی بڑے المیہ کی منتظر ہے مگر اس بار ان سارے ہتھکنڈوں کے باوجود عامر ڈوگر فاتح ملتان ہو گا کہ گو نواز گو، گو نظام گو کے نعرے بازوں کی نظام سے نفرت جنون میں بدل چکی ہے وہ شخص جس نے شہر اقتدار کو جانے والے ہر راستے پر کنٹینروں کی دیوار چن دی جس کے شخصی اقتدار کو خطرے کی بو محسوس ہوئی تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا وہ سارے جھولی چک جن کی زبانیں پاک فوج کے ضلاف زہر اُگل رہی تھی پاک بھارت سرحد پر مودی کی بدمعاشی پر اُنہیں سانپ سونگھ گیا بے گناہ پاکستانیوں کی گرتی لاشوں پر نہ انہیں اسمبلی کا مشترکہ اجلاس یاد آیا اور نہ ہی ان کے منہ سے حرف افسوس نکلا جن کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اُٹھتے رہے اُن کی زبانیں گنگ ہو گئیں بھٹو کا داماد بھٹو بننے کی ناکام خواہش کا اسیر بن کر بڑے بھائی کے اقتدار کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کو جمہوریت بچانے کا راگ الاپ کر ایک نیا ناٹک متعارف کرانے کے چکر میں ہے۔
مگر زندگی اور ضروریات اس سے کہیں آگے جا چکیں، تکلیف بہت آگے بڑھ چکی 13اگست کو لاہور سے شہر اقتدار جانے والوں نے حشر برپا کردیا اس قافلے والوں نے 18کروڑ عوام کے شعور کو اس مقام پر لاکھڑا کیا۔ جہان شخصی آمریت کی دیواریں لرزہ بر اندام ہیں ایک وحشت ہے جو وطن عزیز کی68سالہ اندھیروں کی تاریخ کے صفحات پر اپنے لہو سے لفظ روشنی لکھ رہی ہے بھوک، ننگ،افلاس ،بے روز گاری ،محرومی کو جنم دینے والی جمہوریت کے آخری صفحہ پر The End لکھنے والے امر ہورہے ہیں بھٹو کی پارٹی زرداری ٹولہ کی خواہشات اور ضروریات بن کر رہ گئی نظریاتی ورکروں کے اندر رہنے والے بھٹو کو قتل کر دیا گیا جیالوں کا احساس مجروح ہوا جب بھٹو کی پارٹی کو یر غمال بنا کر ضیاء آمریت کے دلالوں کی گماشتہ بنا دیا گیا۔
Zulfiqar Bhutto
یہ وہ ورکرز ہیں جن کے جسم درندوں نے سگریٹوں اوت آہنی سلاخوں سے داغے ،جن کی کلائیوں پر ہتھکڑیوں کے نشاں ثبت ہوکر رہ گئے ،جن کے چہروں پر قیدو بند کی سلوٹیں آج بھی ضیاء آمریت کی تازہ داستانیں سناتی ہیں اُن کی پیٹھوں پر اُبھرے ہوئے کوڑوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں ،جن کی ٹانگوں پر لگنے والی گولیوں کے نشاں بے نام ہیںجن کے نظریات پر کاری ضرب لگائی گئی۔ لندن میں ہونے والے دو پارٹیوں کے درمیاں باری کے کھیل کو میثاق جمہوریت کا نام دینے والی ردِ انقلاب کی دونوں پارٹیاں یکجا ہو گئیں مولوی فضل الرحمان کے مفادات ،بلوچستان کے گاندھی محمود اچکزئی کی خاندانی سیاست کے بچائو کی طاقت کا محور ایک ہو چکا ہے مگر اس بار اصل قوت گلیوں ،بازاروں ،کھیتوں ،کھلیانوں اور غریبوں کی بستی میں سمٹ آئی ہے جہاں تاریخ کی آنکھ وہ عمل دیکھ رہی ہے جو اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو تلف کرتا ہوا۔
منزل کی جانب بڑھ رہا ہے زرداری نے اُس جمہوریت کو بچایاجس میں اُس کی تجوریوں کو ہوس زر بھرتی ہے ،لوگ لاعلاج مرتے ہیں ،بچے بھوک سے بلکتے ہیں ،اسکولوں کے سامنے نونہال جوتے پالش کرتے ہیں ،مائیں بازار میں اپنے بچوںکے دودھ کے ایک فیڈر کیلئے عصمتیں بیچتی ہیں ڈگری ہولڈر بیروز گار کود کشیاں کرتے ہیں لیکن ان شریفوں اور زرداریوں کے منفعوں، عیاشیوں اور لوٹ مار میں جب معمولی کمی آتی ہے تو ان کی حالت تشویشناک ہو جاتی ہے۔ عوام کا سمندر جب کسی کی قیادت میں نظام بدلنے کی خواہش لیکر نکلتا ہے تو زرداریوں کو پانی کا بلبلہ معلوم ہوتا ہے ان کے نظام کے کچلے ہوئے انسانوں کے اندر پکنے والے لاوے کا قیامت خیز شور انہیں سنائی نہیں دے رہا انہیں لائل پور میں برپا انقلابی حشر دکھائی نہیں دے رہا سمندری کے بھائی غلام عباس کی بات دل کو لگتی ہے کہ اب یہ ٹریلر نہیں چلے گا دو پارٹیوں کی خوں آشام جمہوریت کے خلاف عمران کی جدوجہد انتہا کو پہنچ رہی ہے۔
اُس کے شانہ بشانہ اِس خوں آشام جمہوریت کے زخموں کو سہ کر جوان ہونے والی وہ نسل کھڑی ہے جن کے خواب بیچ دیئے گئے جن کی مایوسی میں انگارے اُبھر رہے ہیں ،جو اب اپنے کندھوں پر خوابوں کا قرض اُٹھا کر اس نظام کو راکھ کرنے نکلی ہے قادری اور عمران کی قیادت میں بکھری ہوئی مزاحمتیں یکجا ہو رہی ہیں رائے عامہ کے سبھی محور مراکز جن میں الیکٹرانک ،پرنٹ میڈیا بھی شامل ہیںکے لبرل ،ریڈیکل ،آزادی پسند ،محب وطن حلقے ایک زباں ہوکر عمران کی اس سچائی کی تصدیق کر رہے ہیں 2013کے الیکشن میں عوام کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈالا گیا حقائق ہمیشہ ٹھوس چیز ہوا کرتے ہیں۔