تحریر : روہیل اکبر صرف ایک ماہ میں جمہوریت نما آمریت کا عوام کے لیے تحفہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پچھلے ماہ ستمبر کے صرف 30 دنوں میں 163 افراد نے مختلف طریقوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن سے قبل بڑے بڑے دعوے کرکے عوام کو بیوقوف بنانے والے حکمران پوری توانائیاں اپنی حکومت کو بچانے اور لوٹ مار کرنے میں نہ صرف کرتے بلکہ عوام کو اس جنجال سے نکالنے کی کوشش کرتے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت انہیں چھوڑ کرگئی تھی مسلم لیگ ن کو پہلی بار حکومت کرنے کا موقعہ نہیں ملا بلکہ یہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں متعدد بار حکومت میں باریاں لے چکے ہیں اور ہر بار عوام کو بیوقوف بنا کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہیں مگر پاکستان اور عوام کو مشکل میں ڈال کر ذلیل وخوار ہو کر ایوان اقتدار سے نکال باہر کر دیے جاتے ہیں بعد میں معافی مانگ کر اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں اور عوام کو پھر سے بیوقوف بنانے کے لیے میدان سیاست میں آپہنچتے ہیں ملک میں غریب کا بچہ اس وقت تک غریب ہی رہتا ہے۔
جب تک وہ کوئی دو نمبری نہ شروع کردے اور ہمارے حکمران چونکہ خود دو نمبری سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اسی لیے وہ اس طریقہ کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہوئے ملک میں سفارش، رشوت اور اقربا پروری کوپروان چڑھاتے ہیں آج ملک بھر کے تمام سرکاری ادارے کرپشن کی علامت بن چکے ہیں اور ہماری عوام اس کرپٹ نظام کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ جب تک وہ اپنے جائز کام کے لیے بھی کسی کی سفارش نہ کروالیں یا رشوت نہ دیں لیں تو انہیں بھی تسلی نہیں ہوتی ان سب برائیوں کی جڑ اقتدار کے ایوانوں میں بڑی مضبوط ہے کیونکہ جب کسی بھی معزز سینٹر،ایم این اے یا ایم پی اے کو اسکے علاقہ میں ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے گرانٹ جاری کی جاتی ہے تواس گرانٹ کو ہضم کرنے کے لیے کمیشن خور مافیا ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو جاتے ہیں جس محکمہ میں یہ گرانٹ جاتی ہے وہاں کے چپڑاسی سے لیکر ہر اعلی افسر تک ان پیسوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔
Pakistan
حالانکہ یہ ترقیاتی کام کروانا ان ممبران کی ذمہ داری نہیں یہ کام ضلعی حکومتوں کا اور مقامی کونسلرز کا ہے جن سے یہ جمہوری حکومت دور بھاگتی ہے عمران خان نے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے کیونکہ جب تک ملک میں بلدیاتی نظام بحال نہیں ہوجاتا اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہمیشہ بلدیاتی نظام سے فراری اختیار کی ہے کیونکہ ہمارے حکمران اپنے ساتھ اقتدار میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے یہاں تک کہ عوام کو بھی اپنے آپ سے دور رکھتے ہیںیہی وجہ ہے آجکل تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جلسوں میں عوام کا سمندر ان حکمرانوں سے اپنی بے زاری کا کھل کر اظہار کررہا ہے اگر یہ ایک جمہوری حکومت ہوتی تو آج لوگ انکے خلاف باہر نہ نکلتے اور ان کے اپنے ہی جلسوں میں گو نواز گو کے نعرے نہ لگتے اب بھی وقت ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک میں فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کا اعلان کریں اور بیرون ملک وہ دولت جو لٹیروں نے لوٹ کر رکھی ہوئی ہے اسے واپس پاکستان لائیں اب آخر میں ان خود کشیوں کا ذکر جو پچھلے ایک ماہ کے دوران ہوئی ہیں یہ صرف وہ خودکشیاں ہیں جو پولیس کے پاس رپورٹ ہوئی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوسکی وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں ا نسانی حقوق کی علمبردار تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹوڈائریکٹر الفت کاظمی کی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ماہ ستمبر 2014 میں ملک بھر میں غربت بے روزگاری، معاشی و معاشرتی ناانصافی کے سبب ستمبر 2014 کے دوران 163افراد نے خود کشی کی۔
Suicide
خود کشی کرنے والوں میں 124 شادی شدہ جبکہ 39 غیر شادی شدہ ان میں سے113مرد اور50خواتین شامل ہیں اکثریت شادی شدہ تھیں ،موت کو گلے لگانے والوں میں پنجاب سے 92 سندھ سے34خیبر پختون خوا سے30مرد و زن شامل ہیں جبکہ بلوچستان سے7افراد شامل ہیں خودکشی کے ان واقعات میں15سال سے لیکر60سال تک کے افراد شامل تھے مگر خود کشی کرنے والوں کی اکژیت20سال سے لیکر34 سال تک کے نوجوانوں کی ہے سب سے زیادہ خود کشیاں معاشی پریشانیوں کی بنا پر پیدا ہونے والے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے ہوئیں جنکی تعداد71تھی جبکہ گھریلو لڑائی جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والوں کی تعداد 36 رہی بے روزگاری سے تنگ آ کر14،مالی حالت کی مشکلات سے 5،غربت سے عاجز ہو کر18 افراد نے اپنے آپکو موت سے ہمکنار کر لیا۔
ان خود کشی کرنے والوں نے روائتی طریقہ سے اپنے آپ کو ہلاک کیا جن میں سب سے زیادہ نے زہر خورانی سے66افراد، گلے میں پھندا ڈال کر38، خود کو گولی مار کر36،تیز رفتار ٹرین کے سامنے کود کر8، اپنے آپکو آگ لگا کر4، پانی میں ڈوب کر16اور بلندی سے کود کر2، بجلی کو چھو کر2 اور دیگر نے مختلف طریقہ اپنایا ان خود کشی کرنے والوں میں اکثریت غریب اور کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی جنہوں نے معاشرے کی ناہمواریوں معاشی مسائل کی فرسٹریشن کا شکا رہو کر اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا لہذا ملک بھر میں خود کشیوں کے اس المناک رحجان کو روکنے کے لئے حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو تا چلاجائے گا۔