تحریر : ایم سرور صدیقی جھوٹے وعدے کرنے والے دوسروں کو الو بنانے کافن جانتے ہیں اور بے چارے مسائل کے مارے لوگوں کے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ماضی میں تو سنا کرتے تھے وعدہ خلافی عاشق ِ نامدار سے ان کے محبوب کیا کرتے ہیں اسی لئے ہجرو وصال کے دوراہے پر عاشق ٹھنڈی آہیں بھر کر وقت گذارا کرتے کئی اسی کش مکش میں شاعر بن جاتے ویسے ہجرو فراق میں صندل کی طرح سلگتے رہنے کا اپنا مزاہے لیکن اب اب کچھ قدریں، محاورے اور حالات بدل گئے ہیں دل جو کبھی جلتا بھی نہیں بجھتا بھی نہیں کی تفسیر بنا رہتا تھا اب بجلی کی آنکھ مچولی سے سلگتا رہتا ہے مگر جب بجلی کا بل آتا ہے ایک دل نہیں پورے کے پورے خاندان کے دل کسی عاشق ِ رو سیاہ کی مانند جل اٹھتے ہیں۔
اس لئے اب ڈاکٹر مشورہ دینے لگے ہیں کہ کمزور دل کے لوگ بجلی کے بل دیکھنے سے گریز کریں ہمارے ایک حکمران نے احتجاجی کیمپ میں ہاتھ والا پنکھا اداکارہ انجمن کے اندازمیں جھلتے ہوئے علی الاعلان دعویٰ کیا تھاہم نے اقتدارمیں آکر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا انہیں حکومت میں آئے ڈیڑھ سال ہو چلا ہے لیکن۔۔۔وہ دن اور آج کا دن عوام انہیں وعدہ یاددلاتے ہیں اور وہ آئیں بائیں شائیں کرتے وقت گذاررہے ہیں ”عوام ”نے تو انہیں اپنا محبوب جان کر اتنے ووٹوں دے دئیے تھے۔۔۔دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے اس ملک میں آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ممکن ہے اور جناب یہ کون سا قانون اور آئین ہے کہ چپ چاپ بجلی5روپے یونٹ مہنگی کردی جائے اور پارلیمنٹ سے منطوری بھی نہ لی جائے جبکہ اس سال بجٹ میں پرچون فروشوں پر بھی ٹیکس لگ گیاہے وہ ناراض نہ ہوں ٹیکس امیر دیتے ہیں اب تو ان کا شمار امیر لوگوںمیں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ امسال پیش کئے جانے والے بجٹ میں1422ارب کا خسارہ بتایا گیاہے خود وزیر ِ خزانہ نے اعتراف کیاہے کہ وہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے بجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے انشاء اللہ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی اسحق ڈار اورCBRحکام کی مصروفیات زیادہ ہوئیں تویقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا یقینی ہے حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی۔اس بجٹ میں ایک اور کمال کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے کہ بجلی کے صارفین سے ایڈوانس ٹیکس لیا جائے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے 16ماہ کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم کیا ہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی ہے تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے کیوں نہیں آئیں؟ ہے کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ جب حکومت سماجی اور معاشی انصاف کو یقینی نہیں بناتی توپھر آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیسے ممکن ہے ؟ حکومت غلط پالیسیوں اور عوام کی منفی سوچ کی وجہ سے وطن عزیز میں مایوسی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ ملا اللہ تبارک تعالیٰ نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے حتیٰ کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورة رحمن میں جنت کی جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے وہ تمام تر پاکستان میں وافر جاتی ہے غالباً ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کلمہ ٔ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی پہلی مملکت ہے اللہ جل شانہ’ نے اس ملک کو بھرپور وسائل سے سرفراز فرمایا اس کے باوجود ہم نا شکرے ہیں کبھی بجلی نہیں لوڈشیڈنگ نے کاروبار تباہ کردئیے—کبھی گیس نہیں— کبھی پانی نہیں— آئے روز بجلی، گیس، اشیائے خودونوش، آٹا، چینی، گھی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ایک زرعی اور انڈسٹریل ملک میں لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں یہ توقیامت کی نشانیاں ہیں سچ ہے جو تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کرتے ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔
Petroleum Products
موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کو ہائی وولٹیج کرنٹ لگا دیاہے بجلی کے بلوںپر نئے ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں بجلی چوری اور لائن لاسز کا کھاتہ بھی عوام کے میٹروں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کئی لوگ اسے ڈاکہ زنی سے بھی تعبیر کرتے ہیں بجلی کے بلوں میں کئی نئے خانوںکی لکیریں ڈال کر نہ جانے کون کون سے ٹیکسز لگا دئیے گئے ہیں اس سے پہلے عوام ٹی وی فیس، نیلم جہلم سرچارج، انکم ٹیکس،GSTاور نہ جانے کون کون سے ٹیکس دے رہے ہیں۔۔یہی حال موبائل فون کاہے جتنے کارڈ ری چارج کریں تقریباًآدھے پیسے ہی پلے پڑتے ہیں عام آدمی انپے حالات سے عاجز آگیاہے ،اشرافیہ کے اثاثے ان کے پیٹ کی طرح بڑھتے ہی جارہے ہیں اور عوام کو آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی با لا دستی کا سبق دیا جارہاہے ان سے مزیدقربانیاں مانگی جارہی ہیں، عوام کی کوئی سننے کو تیارنہیں پھر بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے حکمرانوں کو یہ جمہوریت عزیزہے توکیا کہا جا سکتاہے؟۔ٹیکس چور، جعلی ڈگری ہولڈر، کرپٹ افسر، بیشتر سیاستدان، ملاوٹ کرنے والا مافیا، قبضہ گروپ ،جمہوریت کانام لے کروسائل سمیٹے والے، قرآن کی آیات پڑھ پڑھ کر اسلام بیچنے والے یہ سب کے سب پرلے درجے کے جھوٹے ہیں جن کا اعتبارکرنابھی گناہ ہے ہونا تو یہ چاہیے جعلی ڈگری ہولڈر ارکان ِ اسمبلی کرپشن میں ملوث تمام سیاستدان، بینکوں سے قرضے معاف کروانے اور لاکھوں کروڑوں کے نادہندہ عوام کے منتخب نمائندے، بجلی، گیس اور ٹیکس چوروں کی پراپرٹی بحق ِ سرکارضبط کرکے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیدیا جائے اس سلسلہ میں عدالت ِ عظمی کو ازخود نوٹس لے کرملک کے وسیع تر مفاد میںاپنا کردار کرناچاہیے واپڈا، سوئی نادرن،سوئی سدرن گیس،CBRسے بجلی، گیس اور ٹیکس چوروں کی فہرستیں طلب کی جائیں اس ملک میں کروڑوں کی لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں آنا اورٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں عوام کے حقوق کی باتیں کرنا فیشن بن گیا ہے یہ سنگین مذاق اب بند ہو جانا چاہیے۔
پاکستان میں جمہوریت کا بول بالااسی صورت ہو سکتا ہے جب جمہوریت کے ثمرات عام آدمی پہنچیں۔اب تلک تو عوام محرومیوں کا شکاراور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم چلے آرہے ہیں۔۔سماجی انصاف سے معاشی اور معاشرتی انصاف کسی بھی ادارے میں میسر نہیں کہتے ہیں وقت بڑابے رحم ہوتاہے جب تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے تووہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا تماشا بنانے والے خود تماشا بن سکتے ہیں دراصل یہ مکافات ِ عمل ہے جس کا سامنا کرنے سے اکثر و بیشتر ڈرتے ہیں حقیقت میںیہ ڈر اس وقت تک دور نہیں ہو سکتا جب تلک حقیقی جمہوریت کا بول بالا نہیں ہو جاتا 5 جولائی اور 12 اکتوبر دوبارہ آنے سے روکنے کیلئے حکمرانوں کو عوام کو ڈیلیور کرنا پڑے گا ورنہ کچھ لوگ بوٹوں کی چاپ سنتے رہیں گے اور کچھ دل ہی دل میں گنگناتے رہیں گے آ جاوے تینوں اکھیاں اڈیک دیاں۔