تحریر : صفور انثار، سعدیہ عاقل کلاس چہارم کی انگریزی کی کتاب میں ایک کہانی غریب دولت مند پڑھ کر بے ساختہ میرے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ کیوں کہ اس کے اختتام پر وہ بات تھی جو میرے پاپا اکثر کہا کرتے ہیں۔ کہانی مختصراً کچھ یوں ہے کہ شہر کا ایک امیر شخص ایک ہوٹل میں جاتا ہے اور سب سے چھوٹا اور سستا کمرا مانگتا ہے جبکہ اسکا بیٹا اس ہی ہوٹل میں ٹھہرتا ہے تو سب سے مہنگا ترین کمرا لیتا ہے منیجر اسے پہچاننے کے بعد سوال کرتا ہے کہ آپکا بیٹا مہنگا ترین کمرا اور آپ سب سے سستا کمرا کیوں لے رہے ہیں۔ وہ جواب دیتا ہے اسکا باپ امیر ہے جب کہ میرا نہیں۔ والد اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ سائباں بنا رہتا ہے اگرچہ زمانے کی سخت تمازت ہو یا پھر بادِ َصر َصر۔ اپنی اولاد کی ہر خواہش پوری کرنا، ان کے تحفظ کا خیال رکھنا وہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھتا ہے۔ اس کے پاس کبھی کوئی بہانہ نہیں ہوتا، کبھی وہ اپنی بیماری کا رونا نہیں روتا۔ محنت کرنے میں جی جان لگانا، نہ دن دیکھنا نہ رات، نہ دھوپ دیکھنا، نہ طوفان بس اپنی اولاد کی خوشی کا خیال رکھنا ، انہیں ہر سکون و آرام مہیا کرنا اسکی زندگی کا خاصا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کو اولاد کی پیدائش اور پرورش کا وسیلہ بنایا ہے۔ ماں ہو یا باپ دونوں اپنی اولاد سے بہت پیار کرتے ہیں اگرچہ والد اولاد کے ساتھ کم وقت گزارتا ہے مگر اس کی ذمہ داریوں اور محبت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماںکی طرح اللہ تعالی نے باپ کے بھی حقوق مقررفرمائے ہیںاور والدکی ناراضگی کو رب کی ناراضگی اوروالد کی نا فرمانی کو رب کی نافرمانی کہا گیا ہے۔ مثالی باپ کی اگر بات کی جائے تو امت محمدی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نمونہ نہیں مل سکتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اولاد کے لیے نہایت شفیق اورمہربان تھے۔ ایک والد دنیا کے لیے جتنا بھی سخت کیوں نہ ہو جب اپنی اولاد کی بات آتی ہے تو اسکا پھتر دل بھی موم ہو جاتا ہے اپنی اولاد کے لیے وہ وہ اپنی ہر چیز دائو پر لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اولاد کے سامنے کوئی دولت کوئی جائیداد اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مگر جب یہ اولاد خدانخواستہ کبھی دکھ دے تو وہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس کے دل کے اتنے ٹکڑے ہوتے ہوں گے جن کا اندازہ لگانا خود اس کے لیے بھی مشکل ہوتا ہو گا۔
والد جہاں اپنی اولاد کوخود سے بڑھ کر محبت کرتا ہے وہاں اسکا سخت رویہ اولاد کو بُرا لگتا ہے کیوں کہ شاید انہوں نے یہ نہیں سنا ہو گا باپ کا پیار سورج کی روشنی کی مانند ہوتا ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی میں تپش ہوتی ہے اسی طرح باپ کا سخت رویہ بعض اوقات اولاد کو ناگوار گزرتا ہے۔ مگر اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کا نظام، دن رات کا قیام، فصلیںاوراجناس کا تیار ہونا، یہ سب سورج کی حرارت کی وجہ سے ہی ممکن ہے بلکل اسی طرح باپ کی محبت اور موجودگی کے بغیر اولاد کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہونے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ والد کی رعب دار شحصیت میںہی اولاد کی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے اسکی وجہ سے اولاد ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے مگر اس سے ہر گزمرادیہ نہیں کے والد اتنا خوف بچوں کے دل پومسلط کر دے کہ وہ اس سے نہ کُھل کر بات کر سکیں، نہ اپنے مسائل بتا سکیں اور احساس کمتری کا شکار ہو جائیں۔ ایک والد کے لیے رعب دار شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کا دوست بھی بننا اچھا ہوتا ہے اس سے وہ کُھل کر اپنے والد سے بات کر سکتے اور بہتر مشورہ لیکر اپنا مستقبل سنوار کر سکتے ہیں۔
Fathers And Child
والدین کو جہاں بچوں پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرنے چاہیے وہاں ان کے ہر فیصلے میں بھی ان کا ساتھ دینا یا انہیں اپنی من مانی نہیں کرنی دینی چاہیے بلکہ جب کہیں انہیں اپنی اولاد کا کوئی فیصلہ غلط لگے وہاں انہیں نہ صرف ٹوکیں بلکہ اس فیصلے کے غلط ہونے کی وجوہات کی نشاندہی کے ساتھ انہیں بہتر مشوروں سے بھی نوازیں۔ اس سے نہ صرف اولاد کا حوصلہ بڑھے گا بکہ ان کا اعتماد مزید پختہ ہو گا اور زندگی میں ان کے قدم کہیں بھی ڈگمگائے تو وہ گھبرائیں گے نہیں ہمت سے کام لیں گے۔
جو بچے باپ کے سایہ شفقت سے محروم رہتے ہیں وہ دنیا کی ہر چیز حاصل کرنے کے بعد بھی خود کو خالی ہاتھ ہی تصور کرتے ہیں۔ کچی عمر میں زمانے کی سختیاں سہنے والے ،مشکل حالات کا مقابلہ کرنے والے وقت سے بہت پہلے ہی مشکلات کی بھٹی میں تپ کرپکے ہو جاتے ہیں مگر اندر سے انکا حال صرف وہ خود ہی جان سکتے ہیں یا ان جیسا کوئی اور۔ جن کے سر سے اللہ تعالیٰ کی مرضی سے والد کا سایہ شفقت اُٹھتا ہے وہ تو اللہ کی رضا پر صبر شکر کر لیتے ہیں مگر اس کے بر عکس دوسری وجوہات پر صبر شکر کرنے کے بعد بھی ایک کسک رہ جاتی ہے ایسی کسک جو اندر ہی اندر انسان کا خاکستر کرتی رہتی ہے اس کے اندر آگ کا ایک لاوہ اُبلتا ہے مگر باہر بلکل مکمل سکوت۔ کوئی شخص اسے دیکھ کر اسکی اندر کی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یہاںکہیں کوئی والدین کی نعمت سے محروم ہے۔
Fathers
کہیں کوئی اس نعمت کے ہوتے ہوئے بھی اس سے استفادہ حاصل نہیں کر پا رہا، کہیں کوئی اولاد نافرمان ہے اور کہیں والدین کو انکی پرواہ نہیں۔ دنیا کا نظام ایسے ہی ملا جُلا چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے ان پر جو والدین کی نعمت سے مالا مال ہیں اور ان کی محبت و شفقت اپنے دامن میں سمیٹنے میں مصروف میں،وہ اللہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کے کڑی تمازت اور بادِ صَر صَر کے سائباں کو سلامت رکھے اور انکی محبت سب کو نصیب کرے۔ اور جن کے والدین حیات نہیں انہیں جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ اور اولاد کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔