کابل (جیوڈیسک) ان کا کہنا تھا کہ میں ان خواتین کا حوصلہ اور ہمت بڑھانا چاہوں گی جو اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ یاد رہے کہ افغان صدارتی انتخابات میں رولا غنی، اپنے خاوند کے شانہ بشانہ کمپین کرنے والی واحد خاتون تھیں۔
رولا غنی نے ابتدا ہی سے ماضی کی افغان خواتین اول کی عوام میں نہ جانے اورگھر میں ہی رہنے کی روایت توڑ دی ہے۔ رولا نے کہا ہے کہ اشرف اور میں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔
یہ ایک قدرتی ملاپ تھا ، ان کی تو آئیڈیل شخصیات تک ایک تھیں۔ ان کے بقول،میں موجودہ افغان روایات تبدیل نہیں کرنا چاہتی ، افغان ثقافت میں ایک دوسرے سے قریبی تعلق اور دکھ درد میں شریک ہونے جیسی روایات پچیس سالہ خانہ جنگی کے باوجود زندہ ہیں ، یہی اس معاشرے کی خوبصورتی ہے جو کہ مغربی معاشرے میں نہیں۔ مسز غنی کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ لبنان کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں۔
اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا شادی سے قبل اس نے اسلام قبول کر لیا یانہیں۔ اشرف غنی اور ان کی ملاقات 1970 میں بیروت میں ہوئی جہاں یہ دونوں امریکی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے طالب علم تھے۔
مسز غنی کا کہنا تھا کہ اشرف غنی اپنی روایات پر عمل پیرا ایک ایسے انسان ہیں جو کہ ایک کھلا اور وسیع ذہن رکھتے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ افغانستان کا ہر مرد ان کی طرح ہو۔ ستر کی دہائی میں غنی اور رولا امریکا چلے گئے جہاں اشرف غنی نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی بعد ورلڈ بینک میں ملازمت اختیار کر لی جب کہ رولا اپنے دو بچوں کی پرورش میں مصروف ہو گئیں۔
ان کی بیٹی مریم غنی وڈیو آرٹسٹ ہیں جب کہ بیٹا طارق ترقیاتی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ مسز غنی کے الفاظ میں ، ہمارے بچوں کو اپنی تاریخ اور رنگ و نسل پر فخر ہے ، دونوں اپنے آپ کو لبنانی ، افغانی نژاد امریکی کہلواتے ہیں۔
یہ اکثر افغانستان بھی آتے ہیں ، دونوں نے یہاں کافی کام بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانی چاہیے ، انہیں یہ کہنے کی ہمت ہونی چاہیے کہ یہ چیز ہمیں پسند نہیں اور اس لیے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔