تحریر : نعمان قادر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کو خطوط لکھ کر اُن کی توجہ اصلاحِ اُمت کی طرف مبذول کرائی ہمیشہ حکومت کی تعریف اور تنقید کرنے والے موجود رہتے ہیں مگر راہنمائی کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپور شریف) کی معروف صحافی نعمان قادر مصطفائی سے فکر انگیز گفتگو، اس عالم رنگ و بو اور نا پائیدار کائنات میں بے شمار انسان پیدا ہوئے جن میں سے اکثر ایسے ہوئے کہ ان میں کوئی کمال وخوبی نہیں اور بعض لوگ ایسے ہوئے جو صرف چند خوبیاں رکھتے تھے صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوںکی جامع ہے پیرمیاں جلیل احمد شرقپوری تصوف کی دنیا کا ایک ایسا درویش ہے جسے دیکھتے ہی روح میں تازگی ، فرحت اور مسرت کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،پیر صاحب درویش منش اور سادگی کا پیکر ہو نے کے ساتھ ساتھ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے بھی ہیں، آپ کا لہجہ دھیما، مزاج ٹھہراہوا، اُمت مسلمہ کے لیے ہمیشہ سوچتا ہوا ذہن،عشق رسول کے نغمے گاتی ہوئی زبان، پر وقار چہرہ یہ ہے سراپا اس مردِ درویش کا۔
پیر صاحب کی دانش گوہر سردیوں کی چاندنی اور جنگل کے پھول کی طرح ہے ۔ صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری صاحب ِ دست ِ سخا بھی ہیں پیر صاحب بات کو روا یتی انداز میں نہیں کرتے مگر ان سے زیادہ روایت کی اہمیت کو کون جانتا ہے اور یہ ہم سب کا اعزاز ہے کہ قبلہ صاحبزادہ صاحب ہمارے زمانے میں موجود ہیں ۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کے بند دریچے کھولنے اور پا کیزہ و پختہ افکارکو جلا بخشنے کے لیے آپ نے ”اِدارہ دارُ الاصلاح ”کی بنیاد رکھ کر قوم کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کو نئی روشنیوں، نئے افکار اور نئی جہتوں سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حُکامِ بالا کی سوچ کے بند در کھولنے کی بھی کوشش کی ہے ان کی مجالس میں بیٹھنے والے گواہی دیتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر علامہ اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آجاتا ہے ہزار خوف لیکن زبان ہو دل کی رفیق یہی رہاہے ازل سے قلندروں کا طریق زیر نظر ان کی کھری کھری اور اُجلی نکھری باتیں ہمیں ایک نئی منزل کا پتہ دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں آئیے آستانہ عالیہ شرقپور شریف کے سجادہ نشین ، سابق ضلع ناظم ، سابق ایم این اے صاحبزادہ پیر میاں جلیل احمد شرقپوری مجددی نقشبندی کی ر وح پرور باتیں سنتے ہیں(ادارہ )
Hazrat Imam Rabani
نعمان قادر ! روایتی سوال ہے کہ آپ کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں ؟ صاحبزادہ جلیل احمد :سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے ناچیز کو موقع عطا فرمایاکہ میںشرقپور شریف سے شائع ہونے والے ” نوائے شرقپور شریف’ ‘کے صفحات کے ذریعے اپنے خیالات و افکار بیان کر سکوں یقینا یہ جریدہ آپ ایسے اہل قلم کی راہنمائی میں ملک و قوم کی خدمت میں اہم کردار ادا کرے گا،اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ، رسولِ رحمت ۖ کی نظرِ رحمت اور اولیاء اللہ کا فیضان ہے کہ مجھے اسلاف کی کامل نشانی ،ایک کامل درویش ، فخر المشائخ قبلہ حضور صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری مجددی نقشبندی رحمة اللہ علیہ کی آغوشِ ولایت میں آنکھ کھولنے کی سعادت ِ عظمیٰ نصیب ہوئی ،میرے ابا جی حضور جو میرے لیے ایک کامل مُرشد کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ہر لحظہ اُن کی راہنمائی اور شفقت مجھے نصیب ہوئی ، آستانہ عالیہ شرقپور شریف کی نسبت ہی میرے لیے اصل اعزاز ہے عصری و دینی تعلیم کے حصول کے بعد روحانی و سماجی معاملات میں زندگی کے شب و روز گزرتے رہے جب اپنے علاقہ کے لوگوں کی حالت دِگر گوں دیکھی تواکثر طبیعت کُڑھتی رہتی مگر آستانہ عالیہ کی خدمت سے ہٹ کر سیاسی معاملات میں مصروف نہیں ہو نا چاہتا تھا مگر 2002ء کے الیکشن میں اہلِ علاقہ کے پر زور اصرار اور پھر جنابِ میاں محمد نوازشریف صاحب کے سر زمین سعودی عرب سے ٹیلی فون کال اور اصرار پر اپنے آپ کو ذہنی طور پرتیار کیا اور احباب کی محبتوں ، حلقہ کے لوگوں کے پیار اور اپنے بزرگوں کی خاص دُعائوں سے اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر کامیابی نصیب فر مائی ، ناچیز نے اپنے دور میں بھر پور ترقیاتی کام کرائے ، روز گار کے مواقع فراہم کیے ، تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کیا ، صحت کے بنیادی یونٹس گائوں گائوں قائم کیے ، لوگوں کو انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا پھر مشرف دور میں ضلع ناظم کی حیثیت سے عوام کی خدمت کی اور عوامی خدمت اور اصلاح کا سفراب تک جاری ہے۔
نعمان قادر ! خانقاہی نظام کے سجادہ نشینوں کا عصری علوم سے ہم آہنگ ہونا کتنا ضروری ہے اگر ضروری ہے تو کیوں ؟ صاحبزادہ جلیل احمد !بہت اچھا سوال ہے صرف سجادگان کاہی عصری تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص کا ہم آہنگ ہونا بہت ہی لازم ہے بلکہ اگر یو ں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اور عصری تعلیم لازم و ملزوم ہیں ہماری خانقاہوں میں عموماََ جس نظریے کا پر چار ہوتا ہے اس کا دائرہ کار صرف اپنے حلقہ ارادت تک محدود ہوتا ہے اگر اس آفاقی اور عالمگیر نظریے کو بین الاقوامی سطح پر نمایا ں کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں اور جب تک کسی بھی شعبہ کو اپنے خول کے اندر بند رکھیں گے اس کے اثرات اور فیوض و بر کات اس خول سے باہر نہیں نکل سکتے ، امریکہ اور یورپ میں اگر آپ انہی کی زبان میں اپنے نظریے اور عقیدے کا پر چار کریں گے تو لوگ بہت جلد آپ کے قریب آئیں گے اور آپ کے پیغام کو بھی احسن انداز سے سمجھیں گے آج ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے عصری تعلیم سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کہ ہم کلیتاََ عصری تعلیم سے غافل ہیں اکثر خانقاہوں پر تعلیمی کام نہیں ہو رہاہے تعلیمی کام سست اور نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے کہ لوگ تصوف کو خارج از اسلام قرار دے رہے ہیں اور اس کے خلاف بہت سے محاذوں پر حملے ہو رہے ہیں جن کا مقابلہ کرنا عصری تعلیم سے عاری خانقاہوں کے سجادگان کے بس میں نہیں ہے جبکہ غیر مقلد اور بد عقیدہ لوگ اس سلسلے میں بہت آگے جا رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غافل ہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور چا روں طرف ہماری نظریں ہیں جبکہ اسلام کی بہتر خدمت ہمارے اسلاف اور اکابرین نے کی جن میں ہمارے شیخ ، مُربی حضور امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی اورحضور غوث الاعظم کا نام سرِ فہرست ہے جن کے دست ِ حق پرست پر لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ، ہمارے ہاں تعلیم کا فقدان ہے ، دینی تعلیم بھی ناپید ہے اور عصری تعلیم سے تو ہماری بیشتر خانقاہیں کوسوں دور ہیں مگر بعض ایسی خانقاہیں جہاں پر عصری تقاضوں کو پورا کیا جا رہا ہے ان میں سر فہرست حضرت پیر کرم شاہ الازہری (بھیرہ شریف ) اور حضرت پیر علا ئو الدین صدیقی صاحب (آستانہ عالیہ نیریاں شریف ) نمایا ں ہیں ہمارے ہی اکابرین تھے جنہوں نے اقتصادی ، سائنسی ، فنی اور دیگر علوم میں اپنے جوہر دکھا ئے ان میں سرِ فہرست حضرت بو علی سینا ،حضرت رومی ،حضرت رازی ، حضرت غزالی اور امام احمد رضا خان جیسی شخصیات نظر آتی ہیں۔
Darbar Sharif Fakhrul Mishaikh
نعمان قادر! پیر صاحب ، خانقاہوں کے ساتھ دینی مدارس کا جو تعلق تھا ماضی میں اس کا حوالہ ملتا ہے مگر دور ِ حاضر میں یہ تشخص ناپید ہے آخر اس کی وجہ ؟ صاحبزادہ جلیل احمد !آپ نے بالکل صحیح کہا، اسی بات کا تو رونا ہے بہت کم تعداد میں ایسی خانقاہیں ہیں جن کے ساتھ درس گاہیں بھی قائم ہیں اور وہاں سے قا ل اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائیں آرہی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جو سب سے بڑا حوالہ ملتا ہے وہ ”صفہ اکیڈمی ” ہے ، مسجد نبوی کے چبوترے پر قائم عظیم الشان روحانی وعلمی درس گاہ جہاں پر رسول ِ رحمت ۖ اپنے جاں نثار صحابہ کرام کو روحانی تعلیم سے نوازتے تھے اسی چبوترے پر دی گئی تعلیم کا ہی اثر تھا کہ صحابہ کرام اسلام کے فروغ کے لیے شرق تا غرب پھیل گئے اور آج اسلام کی نورانی کرنیں انہی کے دم قدم سے پھوٹ رہی ہیں جب سے ہم نے مسجد اور خانقاہ سے درس گاہوں کو علیحدہ کیا ہے اس وقت سے ہم پسپائی کا شکار ہیں اور آج خانقاہ اور درس گاہ کو علیحدہ کرنے کا نتیجہ ہی ہے کہ آج اکثر خانقاہوں (الا ما شا ء اللہ )کے سجادگان دینی اور عصری تعلیم سے نا بلد نظر آتے ہیں ،الحمد للہ !ہم نے با قاعدہ ایک پر وقار نظام کے تحت درس گاہ اور خانقاہ کو یکجا کیا ہوا ہے، حضور ثانی لا ثانی حضرت صاحبزادہ میاں غلام اللہ شرقپوری مجددی نقشبندی نے ایک دینی درس گاہ جامعہ حضرت میاں کے نام سے قائم کی جس سے ہزاروں علما ء کرام زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے اورآپ کے وصال کے بعد انتظام و انصرام میرے تایا جی حضرت میاں غلام احمد مجددی نقشبندی کے ہاتھ میں چلا گیا اور میرے والد گرامی فخر المشائخ میاں جمیل احمد شرقپوری مجددی نقشبندی نے ”دار المبلغین حضرت میاں صاحب ”کی بنیاد رکھی اور ایک عرصہ تک پنجاب کے نمایاں اداروں میں یہ دونوں ادارے نمایاں شمار کیے جاتے رہے اور اب تک یہ دونوں ادارے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اب میں ذاتی طور پر اپنے اسلاف کی اِنہی کاوشوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ”جامعہ شیرِ ربانی ” کی بنیاد رکھنے جا رہا ہوں جس میں ہم پرائمری پاس بچوں کو داخلہ دیں گے اور میٹرک تک تعلیم مکمل کروانے کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیمات میں بھی طلبہ کو پُختہ کیا جائے گا اس ادارہ کے فارغ التحصیل طلبہ ایف اے ، بی اے اور ایم اے مکمل کرنے کے بعد زندگی کے ہر شعبہ میں دنیاوی خدمات سر انجام دیں گے کہ جس سے اسلامی شعائر اور سُنت ِ نبوی ۖ کی جھلک نظر آئے گی۔
نعمان قادر! علماء اور صوفیا ء کے درمیان ایک واضع خلیج ہے آپ اس خلیج کو کیسے دور کر سکتے ہیں ؟ صاحبزادہ جلیل احمد !عرض ہے کہ صوفیاء عظام نے شروع میں جو کام کیا تھا اور اپنے کردار کی بنیاد پر اسلام میں ایک روح پھونک دی تھی اور چہار دانگ ِ عالم میں اسلام کی کرنیں پھوٹنے لگی تھیں۔۔۔۔۔ہمارے اسلاف اپنے مریدین کو عقیدت مندوں کی ایک جماعت تصور کرتے تھے اور جماعت کی خدمت کرنا فرض سمجھتے تھے مگر آج اُس نہج اور طریقہ کا کے مطابق کام نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہیے ،اسی طرح علماء کرام بھی اپنا کردار کماحقہ ادا نہیں کر رہے اکثریت جاہل علماء کی ہم پر مسلط ہے ، آج علماء ، صوفیاء کے کام میں اور صوفیاء ، علماء کے کاموں میں روڑے اٹکاتے ہیں لہذا اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے علماء اور مشائخ کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے سو سائٹی کے سدھار میں اہم کردار ادا کرنا ہو گااور اس کے لیے ہم ادارہ کے پلیٹ فارم سے اِن دونوں کے درمیان رواداری اور احترامِ کا رشتہ پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
نعمان قادر !مروجہ خانقاہی نظام سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں ؟ صاحبزادہ جلیل احمد ! بہت ہی اہم سوال ہے ، مروجہ خانقاہی نظام کو جس پیٹرن پر کام کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر رہا ہے کیونکہ ہم نے من حیث القوم اپنے کردار اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ہم نے اپنے اسلاف کے دیے ہوئے اسباق بھلا دیے ہیں جس کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن اس بات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف اور اکابرین کے دیے ہوئے سبق کو یاد رکھا ہوا ہے اور ہماری خانقاہ ایک مثالی خانقاہ ہے اپنے اسلاف کے سالانہ اعراس کے موقع پر شریعت کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنے مریدین کی اخلاقی و روحانی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور تمام تر غیر شرعی اور غیر اخلاقی رسوم سے پرہیز کیا جاتا ہے بلکہ اپنے اجتماع میں ایسی خرافات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مریدوں کو اپنے اسلاف کے دیے گئے سبق کی دہرائی کرائی جائے کیونکہ ہمارے اجتماع میںمعروف سکالرز ، دانشور ، کالم نگار ،علماء کرام اورمشائخ عظام تشریف لاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر خطاب فرماتے ہیں جس سے تشریف لانے والے عقیدت مند اور عاشقان ِ مصطفی ٰ ۖ مستفید ہوتے ہیں اور آنے والے کچھ نہ کچھ ضرور اپنے دامن میں بھر کر اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں اور پھر اِسی فکر کو گلی گلی ، محلہ محلہ عام کرتے ہیں۔
Darbar Sharif Fakhrul Mshaikh
نعمان قادر!قبلہ پیر صاحب ، دار الاصلاح کے قیام کاخیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا ؟ صاحبزادہ جلیل احمد: نبی رحمت ۖ کا اُسوہ حسنہ اس قدر جامع ، ہمہ گیر اور جاوِدانی ہے کہ حیاتِ انسانی کا کوئی گوشہ اس کی کرم بخشیوں سے محروم نہیں ہے فرد کے مسئلہ سے لے کر اجتماعی مسائل تک ،معاشرتی پیچیدگیاں ہوں یا معاشی اُلجھنیں غرض انسانی زندگی کا کوئی رُخ ہو یا کوئی پہلو نبی رحمت ۖکی سیرت ، اُسوہ حسنہ ، راہبر و راہنما ہے اس ادارہ کے اغراض و مقاصد میں بالخصوص یہ بات شامل ہے کہ نوجوان نسل کی تربیت کا فریضہ اور اپنے اسلاف کی ملک و ملت کے لیے خدمات کو تحریری انداز سے شائع کرا کر اُمت کے سامنے پیش کیا جائے ، ہمارا ادارہ وطن عزیز کے دانشور ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے احباب پر مشتمل ایک ”تھنک ٹینک ” قائم کرے گا جو شبانہ روز وطن عزیز کے مختلف شعبہ جات میں کوالٹی قائم کرنے کے لیے حکومت کو اپنی بھر پور مشاورت اور راہنمائی فراہم کرے گااور گا ہے گاہے ملک کے مختلف بڑے شہروں میں تربیتی اور راہنما نشستیں اور سیمینارز کا اہتمام کرے گا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ادارہ ملک میں پالیسی ساز ادارہ کے ساتھ ساتھ ”پریشر گروپ”کے طور پر بھی کام کرے گا جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ ادارہ کے قیام کا تصور ذہن میں کیسے آیا تو عرض ہے کہ الحمد للہ ہمارے مسلک کے مقتدر اکابرین جن میں قبلہ الشاہ احمد نورانی ، مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی گا ہے گاہے آستانہ عالیہ پر تشریف لاتے رہے ہیں اُن کی سیاسی جدوجہد بھی ہم دیکھتے تھے مختلف حکمرانوں کے ادوار ہم نے ملاحظہ کیے ہیںمگر ایک بات واضع ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر آنے والا حکمران اپنے سے پہلے جانے والے حکمران کے منصوبوں اور پراجیکٹس کو نظر انداز کر کے نئے سرے سے کام کرنے کا عزم کرتا ہے بھلے وہ منصوبہ ملک و قوم کے لیے کتنا ہی مفید کیوں ناں ہو ۔۔۔؟ ہمارے حکمرانوں کے اس عمل سے ایک تو وقت کا ضیاع ہو تا ہے اور دوسرا کثیرسر مایہ بھی صرف ہوتا ہے ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس کی طرف سے کوئی ایسی منصوبہ بندی کر کے حکمرانوں کو دی جائے اور وہ اُسی سے استفادہ کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں ، اپنی اس سوچ کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے میں نے اُس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی سے ملاقات کی اور اُن کو اپنی سوچ سے آگاہ کیا ،اُنہوں نے میری باتیں کافی غور و خوض سے سنیں اور فرمایا کہ آپ کی اِن تجاویز سے ہم راہنمائی لیں گے مگر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا مگر گاہے گاہے اُن کی مختلف جگہوں پر کی گئی گفتگو سے اندازا ہوتا تھا کہ میری باتوں کا رنگ چڑھا ہوا نظر آتا تھا ،اسی ملاقات میں ،میں نے اُن سے شرقپور شریف کے لیے سوئی گیس کی ڈیمانڈ کی جو انہوں نے کمال مہر بانی فر ماتے ہوئے منظور کی اور اس کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کی جس کی وجہ سے اہل علاقہ استفادہ کر رہے ہیں اور اس موقع پر موجود نوریز شکور (وفاقی وزیر پٹرولیم و سوئی گیس )نے کہا کہ آپ واحد اپوزیشن میں سے رکن اسمبلی ہیں جن کی ڈیمانڈ پر ایک خطیر رقم فی الفور منظور کی گئی ہے ،علامہ ڈاکٹر طا ہر القادری صاحب سے بھی زمانہ طالبعلمی میں ملاقاتیں ہوئیں اُن کے سامنے بھی اپنا منصوبہ رکھا اور سوچ کا اظہار کیا ،جناب جنرل پرویز مشرف صاحب سے بھی اُن کی خواہش پر دوبئی جا کر ملاقات کی اور اپنا منصوبہ تفصیل سے ڈسکس کیا کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو حکومت وقت کو بھر پور مشاورت فراہم کر سکے کیونکہ مجھے اُن کی ذات سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں کہ وہ شاید کچھ کر گزریں مگر وہ بھی اس سے پہلو تہی کرتے نظر آئے ،اب میں نے کافی سالوں کی سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد یہ فیصلہ کیاکہ کیوں ناں اپنی خانقاہ سے اس نیک کام کا آغاز کیا جائے اور بارش کا پہلا قطرہ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو الحمد للہ احباب کی بھر پور مشاورت کے بعد اس عزم کا اظہا ر کیا کہ اپنے اکابرین کے سالانہ عرس مبارک پر اس نیک اور فلاح ِ عامہ کے کام کا آغاز کیا جائے ہم کوئی نیا کام نہیں کر رہے بلکہ اپنے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کی سنت پر عمل کررہے ہیں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کو خطوط لکھ کر اُن کی توجہ اصلاحِ اُمت کی طرف مبذول کرائی اور اُن کی خود بھی اصلاح فر مانے کی کوشش کی ہم بھی انشا ء اللہ اس سنت کو جاری رکھیں گے۔
نعمان قادر : جناب، معاشرہ کے سُدھا راور بہتری کے لیے آپ کا ادارہ کیا پلان کرے گا ؟ صاحبزادہ جلیل احمد:اس اہم بات کو ذرا کھول کر بیان کرنے کی کوشش کروں گا جس نے بھی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کر کے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۖ کو حرزِ جاں اور وردِ زباں بنایاہے اس پہ لازم ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی تمام تعلیمات کو اپنے خیالات و افکار کا محور و مرکز بنائے، کیونکہ اسلام ”سلمُُُ” سے مشتق ہے جس کا معنی سلامتی ہے اور سلامتی سے رواداری جنم لیتی ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرے میں آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں انہی شخصیات کو دیکھ ہی لوگوں نے اپنی سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے اگر کسی مسجد کا امام ، کسی منبر کا خطیب ، کسی مکتب کا معلم، کسی خانقاہ کا سجادہ نشین اخلاقیات ورواداری کے سانچے میں ڈھلا ہو گا پھر اس کے پیروکار بھی اس سانچے میں اپنے آ پ کو ڈھالنے کی کوشش کریں گے یاد رکھیے، افراد ہی سے معاشرہ تشکیل پاتاہے اور افراد کی تربیت کے لیے مختلف سطحوں پر ادارے کام کررہے ہیں معاشرے میں صرف رواداری ہی نہیں بلکہ محبت، بھائی چارہ، حسنِ سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ بھی پیدا کرنا ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر بھی یہ کام کیا جاسکتاہے اگر ہر بندہ انفرادی سطح پر بھی رواداری کی سوچ کو اپنانا شروع کر دے تو آج ہمارا معاشرہ جنت نظیر کا منظر پیش کر سکتا ہے مگر بد قسمتی سے ہر بندہ دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہر شخص کی خواہش ہے کہ معاشرہ سدھر جائے مگر کوئی بھی شخص خود کو تبدیل کرنے اور سدھارنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔بقول اقبال افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔
نعمان قادر :مذہبی راہنما اسلام کا خدمت انسانیت کا پہلونمایاں کیوں نہیں کرتے؟ صاحبزادہ جلیل احمد :بہت خوبصورت اور حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا گیا ہے آپ بالکل درست فرما رہے ہیں عالم کائنات میں سب سے حسین، پروقار اور پرکشش مذہب دینِ اسلام ہی ہے اور بانی اسلام حضور نبی اکرم ۖ کی سیرت کا ہر پہلو تابناک ، روشن ، تابندہ، رخشندہ اور درخشندہ نظر آئے گامیں نہایت معذرت سے بصد احترام عرض کروں گا کہ ہمارے بہت سے علماء اور مشائخ ( اِلا ما شا ء اللہ )نے اسلام کے خدمت انسانیت کے پہلو کو نمایاں کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے مگر آج بھی کثیر تعداد میںسکالرز، دانشور، علماء کرام اور جید و معتبر مشائخ عظام نے اسلام کے انقلابی اور آفاقی چہرے کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج جو یورپ اور امریکہ کی گھٹا ٹوپ وادیوں میں اسلام کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں یہ سب جینوئن علماء کرام اور جید مشائخ عظام کی شبانہ روز کاوشوں اور محنتوں کا صلہ ہے اور گھر گھر سے اسلامی و نظریاتی افکار کے اُجالے پھوٹ رہے ہیں تو یہ سب اسلام کی انسانی اور انقلابی تعلیمات ہی کا فیضان ہے اور سیرتِ رسولۖ کا وہ کرشمہ ہے کہ جب غیرمسلم تعصب کی عینک اُتار کر مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے اذہان و قلوب سے سیرت رسول ۖ کی برکت سے تعصب کی دُھول چھٹتی چلی جاتی ہے اور ان پر وہ چیزیں آشکار ہوتی چلی جاتی ہیں جو ان کے اذہان کے بند دریچے کھولنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ہمارے علمائ، خطبائ، مقرررین کی برکتوں سے اسلام پھیلا مگر آہستہ آہستہ دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوںسے درسگاہ اور خانقاہ کو الگ کرنے کی سازش تیار کی گئی دین کو سیاست سے جُدا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اسلامی صف میں نااہل، کم علم بے عمل جہلاء کو پیر یا عالم یا مقرر کا لبادہ اوڑھا کر ان صفوں کو بدنام کیا گیا ہے۔
نوائے شرقپور :”اِدارہ دارُ الاصلاح ” کے اغراض و مقاصد کیا ہوں گے ؟ صاحبزادہ جلیل احمد: پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ سب سے پہلے تو ہم اپنے اسلاف کے لٹریچر کو شائع کرا کر اُمت میں تقسیم کریں گے ، اپنا ایک تحقیقی شعبہ قائم کریں گے جہاں پر اپنے مسلک کے حوالہ سے علمی و تحقیقی کام ہو گا ،وطن عزیز کے مختلف شعبہ جات میں اُس شعبہ سے متعلقہ پالیسی بنا کر دیں گے اور حاکم ِ وقت کو راہنمائی فراہم کریں گے سیمینارز ، کانفرنسز ، اور ریفریشرز کورسز کا اہتمام کیا جائے گا پورے ملک میں اِس کا نیٹ ورک قائم کیا جائے گا اور ہر ضلع سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ لے کر تنظیم سازی کریں گے اور ایک بورڈ آف گورنرز قائم کیا جائے گا جس میں ریٹائرڈ فوجی آفیسران سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے ذہین لوگ لیے جائیں گے، ادارہ دار ُ الاصلاح کے پلیٹ فارمسے کسی بھی ممبر کو موجودہ انتخابی عمل میں عملی طور پر با قاعدہ حصہ لینے کی اجازت نہ ہو گی ہاں اگر ہمارا کوئی ممبر انفرادی طور پر یا کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے قومی انتخابات میں حصہ لے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا ہمارا اصل کام پاور میں آنا نہیں ہے بلکہ پاور میں آنے والے لوگوں کے لیے بے لوث مشاورت اوت تعمیری منصوبہ جات فراہم کرنا ہیں تاکہ حکومت ِ وقت کے لیے ایک بے لوث مشاورتی پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے نعمان قادر :بہت بہت شکریہ صاحبزادہ جلیل احمد : آپ کا بھی بہت بہت شکریہ
اِدارہ دارُ الاصلاح کا پیغام اغراض ومقاصد کے آئینے میں نبی رحمت ۖ کا اُسوہ حسنہ اس قدر جامع ، ہمہ گیر اور جاوِدانی ہے کہ حیاتِ انسانی کا کوئی گوشہ اس کی کرم بخشیوں سے محروم نہیں ہے۔ فرد کے مسئلہ سے لے کر اجتماعی مسائل تک۔معاشرتی پیچیدگیاں ہوں یا معاشی اُلجھنیں۔ غرض انسانی زندگی کا کوئی رُخ ہو یا کوئی پہلو نبی رحمت ۖکی سیرت اوراُسوہ حسنہ ، راہبر و راہنما ہے اس ادارہ کے اغراض و مقاصد میں بالخصوص یہ بات شامل ہے کہ نوجوان نسل کی تربیت کا فریضہ اور اپنے اسلاف کی ملک و ملت کے لیے خدمات کو تحریری انداز سے شائع کرا کر اُمت کے سامنے پیش کیا جائے ، ہمارا ادارہ وطن عزیز کے دانشور، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے احباب پر مشتمل ایک تھنک ٹینک قائم کرے گا جو شبانہ روز وطن عزیز کے مختلف شعبہ جات میں کوالٹی قائم کرنے کے لیے حکومت کو اپنی بھر پور مشاورت اور راہنمائی فراہم کرے گا اور گا ہے گاہے ملک کے مختلف بڑے شہروں میں تربیتی اور راہنما نشستیں اور سیمینارز کا اہتمام کرے گا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ادارہ ملک میں پالیسی ساز ادارہ کے ساتھ ساتھ پریشر گروپ”کے طور پر بھی کام کرے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں خوشامد اور جی حضوری کے کلچر نے معاشرے کو کھوکھلا کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے ہمیشہ تین طبقات حکومتی ایوانوں میں نظر آتے ہیں ایک برسر اقتدار طبقہ اور اِ نکے رُفقاء جو ہمیشہ حکومت کی ہر پالیسی کی تعریف ہی کرتے نظر آتے ہیں خواہ اس میں بے پناہ خامیاں ہی کیوں ناں ہوں اور دوسرا طبقہ حزبِ اختلاف کا ہے۔
جو ہمیشہ حکومتی پالیسیوں پر صرف تنقید ہی کرتا ہے خواہ وہ منصوبہ ملک و قوم کے لیے کتنا ہی مفید ہو اور تیسرا طبقہ بیوروکریٹس کا ہے جن کا اصل کام حکومت وقت کو راہنمائی میسر کرنا اور حکومتی احکامات کو عملی جامہ پہنا نا ہوتا ہے مگر یہ طبقہ صرف جی حضوری ہی کرتا ہے کبھی بھی حکومت کے لیے راہنمائی کا باعث نہیں بنا اب اِن تین طبقات میں ایک تعریف کرنے والا، ایک تنقید کرنے والا اور ایک جی حضوری کرنے والا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے لیے راہنمائی کا فریضہ کون سر انجام دے رہا ہے ہم نے کافی سالوں کی سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کیوں ناں اپنی خانقاہ سے اس نیک کام کا آغاز کیا جائے اور بارش کا پہلا قطرہ بننے کی کوشش کی جائے تو الحمد للہ احباب کی بھر پور مشاورت کے بعد اس عزم کا اظہا ر کیا کہ اپنے اکابرین کے سالانہ عرس مبارک پر اس نیک اور فلاح عامہ کے کام کا آغاز کیا جارہا ہے ہم کوئی نیا کام نہیں کر رہے بلکہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کی سنت پر عمل کررہے ہیں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کو خطوط لکھ کر اُن کی توجہ اصلاحِ اُمت کی طرف مبذول کرائی اور اُن کی خود بھی اصلاح فر مانے کی کوشش کی ہم بھی انشاء اللہ اس سنت کو جاری رکھیں گے پورے ملک میں اِس کا نیٹ ورک قائم کیا جائے گا اور ہر ضلع سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ لے کر تنظیمی سازی کریں گے اور ایک بورڈ آف گورنرز قائم کیا جائے گا جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے مخلص اورذہین لوگ لیے جائیں گے۔
لہذا آئیے : زیست کی راہوں میں محبتوں کے چراغ جلانے کے لیے ہمارے شانہ بشانہ اِدارہ کی ممبر شپ کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئے خود بھی ممبر بنیں اور اپنے احباب کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دیں آپ کی طرف سے دیا گیا ”کندھا اور چندہ” ہمارے مقاصد جلیلہ اور نیک عزائم کو منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے بقول شاعر شاید کوئی دیوانہ ابھی جاگ رہا ہو تم شہر کی گلیوں میں صدا کیوں نہیں دیتے خیر اندیش : صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپور شریف ، سابق ضلع ناظم و ممبر قومی اسمبلی سرپرست اعلیٰ ”ادارہ دارُ الاصلاح ” پاکستان
رابطہ کے لیے ہیڈ آفس :”ادارہ دار ُ الاصلاح ”خانقاہ عالیہ شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ ،پنجاب(پاکستان ) موبائل نمبر03018414200 ،0562590791 ای میلdarulislahsqp@gmail.com