اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر آئینی وسیاسی بحران پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ اگر اپنی دی گئی ڈیڈلائن کے مطابق قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کو واپس بلا لیتی ہے تو سیا سی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہا کہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائے گا جب کہ حکومتی ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ الیکشن کمیشن کے ممبران ہی الیکشن کمیشن ہیں، بال ایک بار پھر سپریم کورٹ کے کورٹ میں جائے گی جب حکومت اور اپوزیشن سپریم کورٹ سے مہلت مانگے گی تو فیصلہ سپریم کورٹ کوہی کرنا پڑے گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت اور قو می اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکو28اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ اگر حکومت نے چیف الیکشن کمشنر تعینات نہ کیاتو ہم اپنے جج کو واپس بلا لیں گے، جبکہ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلا ف خورشید شاہ نے کہا کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں مگر چیف الیکشن کمشنرصرف ریٹائر جج ہونے کی پابندی ختم ہونی چاہیے انتخابی اصلاحات کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہونا چاہیے۔
آئینی ماہر ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب اسکا چیف موجود ہوتا ہے، اس کے بغیر آئینی طور پر الیکشن کمیشن مکمل نہیں ہو گا اور انتظامی کاموں کے علاوہ کوئی کام نہیں کر پائیگا۔
آئینی ماہرین و مسلم لیگ (ق) کے سینیٹروسیم سجاد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے سوچنے کی بات کی ہے اگرچیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی جاتی تو اپنا جج واپس بلا لیں گے مگر ابھی فائنل نہیں کیا، اگر سپریم کورٹ اپنا جج واپس بلا لیتی ہے تو الیکشن کمیشن مکمل نہیں ہو گا اوراپنا کا م نہیں کر سکے گا اورنہ ہی ضمنی انتخابات کروا سکے گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہاکہ ریٹائر یا حاضر سروس جج کو چیف الیکشن کمیشن بنانے کی روایت ہمیشہ کیلیے ختم ہونی چاہیے، اگر سپریم کورٹ اپنی ڈیڈلائن کے مطابق عمل کرتی ہے تو پھر تشویشناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔
مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر رفیق راجوانہ اورظفر علیشاہ نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ اپنی ڈیڈ لائن پر عمل کرتی ہے تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑیگا کیونکہ الیکشن کمیشن کے ممبران اپنی جگہ موجود ہونگے۔سینیٹر ظفر علی شاہ نے کہا ہے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کو واپس بلانا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ آئین میں موجود ہے۔