تحریر : ایم سرور صدیقی ہم مطالعہ میں مشغول تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجی سیلولر دور تھا ہماری رسائی تک کئی بار بیل چیخ چیخ پڑی۔۔۔ سکرین پر نظر دوڑائی تو کوئی ان نون نمبر تھا۔۔ فون کسی کا بھی آ جائے سب کی سننا اپنا وطیرہ ہے۔۔ موبائل کان کو لگایا تو کسی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔۔۔ہیلو۔۔ السلام و علیکم کہا تویوں لگا جیسے کوئی ہچکیاں لے کر رو رہا ہو غور کیا آواز نسوانی تھی ہم گبھرا گئے۔۔ دل نے کہا الہی خیر رات کے اس پہر کون رورہا ہے کہیں کوئی عزیز تو اللہ کو پیارا نہیں ہو گیا۔۔ڈرتے ڈرتے ہم نے پھر کہا ہیلو۔۔ہیلو خود کو محسوس ہوا جیسے آواز گلے میں پھنس کر رہ گئی ہو۔۔۔
کسی کی ہچکیاں اور سسکیاں تیز ہو گئیں۔۔کسی نے روتے ہوئے بے ربط الفاظ میں کہا۔۔ب۔۔ب۔۔ب باغی۔۔ ہہ۔۔ہار گیا ۔۔۔ہمیں بھی دکھ ہے ہم نے یاسیت بھرے لہجے میں جواباً کہا۔۔۔ لیکن ہمیں فون کیوں کیا اس ہار سے ہمارا کیا تعلق؟ جو بات نہیں کہنی چاہیے تھی وہ منہ سے نکل گئی۔۔۔ میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں باغی کو میں جمہوریت کا دیوتا سمجھتی ہوں۔۔۔یہ کہتے کہتے وہ ایسے رونے لگی جیسے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہوں۔۔۔پھر اس نے اپنے آپ کہ سنبھالا دوبارہ بولی۔۔۔اس کی آواز اتنی مترنم جیسے دور کسی مندر میں نقرئی گھنٹیاں سی بج رہی ہوں کہنے لگی میں نے سوچا تھا آپ بڑے حساس ہوںگے اپنا دکھ شیئر کر لوں لیکن۔۔۔ہم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا دکھ شیئر کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔
دکھ باٹنے کا یہی آسان طریقہ ہے مس۔۔۔ اس نے معاً ہماری بات کاٹ ڈالی ۔۔نقرئی گھنٹیوں جیسے آواز میں پھرگویا ہوئی۔۔۔مس نہیں میں ہوں مسز جمشید۔۔۔آپ سن رہے ہیں تو سنیں باغی نہیں ہارا۔۔۔ جمہوریت ہار گئی ہے۔ سیاست ہار گئی۔۔آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والے کوبے حسی نے ہرا دیا۔۔۔قوم نے اس کی قربانیوں کی قدر نہیں کی۔۔۔وہ پھر سسکیاں لینے لگی۔۔ اور اچانک لائن کٹ گئی۔۔۔ہم نے اسی نمبر پر کال کرنا چاہی نمبر بندہو چکا تھا کئی بار ڈائل ۔۔ری ڈائل کیا جواب ندارد۔۔۔بلاشبہ مخدوم جاوید ہاشمی ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ کا نام ہے۔بنگلہ دیش نامنظور تحریک سے اب تلک بہت سے اعزازات ان کا مقدر بنے وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں جو 2 بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے صدر کے عہدے پر فائز رہے انہوں نے جب مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر تحریک ِ انصاف میں جانے کافیصلہ کیا کارکنوں کی آہ وبکا اور بیگم کلثوم نواز کے آنسو بھی نہ روک سکے یہ میاں نواز شریف کیلئے ایسا دھچکا تھا جس کی کسک کارکن آج تک محسوس کررہے ہیں میاں نواز شریف کے برے وقت کے ساتھی مخدوم جاویدہاشمی نے جس اندازسے ان دونوں جماعتوں کو چھوڑا کارکنوں کی اکثریت نے اسے پسند نہیں کیاان کی شکست اسی کاردِ عمل تھا۔۔۔
ایک بڑا لیڈرہونے کے باوجود باغی کی شخصیت میں واضح تضادنظر آتاہے وہ مسلم لیگ ن میں تھے تو انتہائی مضطرب۔۔۔روٹھنا منانا لگارہا ۔۔۔پھرتحریک ِ انصاف میں شامل ہوگئے لیکن ایک دن انہوں نے یہ کہہ کر سب کو حیران پریشان کر ڈالا کہ میرا لیڈر میاں نوازشریف ہے جس نے بھی سنا ششدر رہ گیا شاید یہ ان کے اندرکا پچھتاوا تھا جو مسلم لیگ ن چھوڑنے کے باعث آہستہ آہستہ ان کے دل و دماغ پر گھر کرگیا۔۔۔پھر انہوںنے کہا مجھے سب سے زیادہ عزت عمران خان نے دی۔۔۔پھر اسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرڈالی۔۔پاکستان میں جمہوریت کیلئے سب سے بڑی قربانی مخدوم جاوید ہاشمی نے دی جس کا اعتراف سب کرتے ہیں ۔۔کوئی نہ بھی کرے تب بھی یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ڈکٹیٹر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر استقامت سے ڈٹ جانے والی شخصیت مخدوم جا وید ہاشمی کو کون نہیں جانتا۔ پرویز مشرف کی چھتری تلے قائم ہونے والی ق لیگ کے دو ر ِ حکومت میں مخدوم جا وید ہاشمی کو غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا اور ”بغاوت ” کے الزام میں 5 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انہوںنے آمریت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جیل کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی کی لکھی کتاب ”میں باغی ہوں” نے بہت شہرت حاصل کی ۔گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے جب زرداری گورنمنٹ میں وزارتیں لینے کا فیصلہ کیا تو مخدوم جا وید ہاشمی واحد سیاستدان تھے جنہوںنے کسی بھی انداز میں جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کردیا اور اصولوں کی خاطروفاقی وزیر بننا قبول نہ کیا آج کی حکمران جماعت کے کئی رہنمائوں نے بازوئوں پر سیاہ پٹی باندھ کر پرویز مشرف سے حلف لے لیا جو آج روز مشرف کے خلاف بیان داغ رہے ہیں۔۔۔
Javed Hashmi
خیر بات ہورہی تھی مخدوم جاوید ہاشمی کی جنہوں نے بھرپور سیاسی جدوجہدکی لیکن ان کے انجام پر کئی لوگ ازردہ، افسردہ ہیں۔۔ عام لوگوں کا خیال ہے ان سے کئی سیاسی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں پہلی بات تو انہیں مسلم لیگ ن کوہی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔۔تحریک ِ انصاف میں شامل ہوئے تھے تو قیادت سے اختلافات کے باوجود انہیں ڈٹ جانا چاہیے تھا پارٹی میںرہ کر اصلاح ِ احوال کی کوشش کرتے رہنا ضروری تھا۔۔۔باغی کوڈی چوک سے آگے پا رلیمنٹ کے سامنے جانے پر اعتراض تھا جب دھرنا وہاں سے واپس آگیا تو اصولی طورپر ان کا اعتراض دور ہوگیا ۔۔ شوکاز نوٹس ملنے پر بھی انہیں پارٹی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی اپنی ناراضی کااظہارکرکے موجودہ معاملات سے لاتعلق ہو جاتے تو ان کا سیاسی وزن قائم رہتا اوران کی ذات کا ایک بھرم بنارہتا لگتا ہے مخدوم جاویدہاشمی نے اپنی زندگی کے تمام اہم فیصلے کرنے میں جلدبازی سے کام لیا عقل کے فیصلے جذبات سے کرنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک تاریخی خطاب کیا جس کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی انہوںنے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ تو دے دیا تھا اپنی زندگی کے عروج کے دوران بھریا میلہ چھوڑکر دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے تو تاریخ میں امر ہو سکتے تھے علالت، مخالفت نامناسب انتخابی مہم اور ناموافق حالات کے پیش ِ نظرمخدوم جاوید ہاشمی کا دوبارہ عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن کر سامنے آیاہے جس کے اثرات یقینا مستفبل پر بھی اثرانداز ہوں گے تحریک ِ انصاف کے جلسہ کے جواب میں انہوںنے یا مسلم لیگ ن نے کوئی جلسہ نہ کیا حریفوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا۔۔۔
بعض لوگوں کا خیال ہے مخدوم جا وید ہاشمی ٹریپ ہو گئے دھرنے ناکام بنانے کیلئے ان کو استعمال کیا گیا اور اس کوشش میں حکومت تو بچ گئی لیکن” عزت ِ سادات ”نہ بچ سکی یہ تو خدا ہی بہتر جانتاہے کہ اندرکی کیا کہانی ہے؟ منظر ۔۔۔پیش منظر۔۔محرکات اور سیاق و سباق کیا تھے؟ کبھی نہ کبھی یہ حقیقت منظر ِ عام پر ضرور آئے گی تو یقینا تہلکہ مچ جائے گا۔۔بہرحال حالات جو بھی ہوں۔۔سیاستدانوںکی رائے جو بھی سامنے آئے دل کو یقین ہے ایک نہ ایک دن یقینا جمہوریت کی سربلندی کیلئے مخدوم جاوید ہاشمی کی قربانیوں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا سچی بات یہ ہے کہ وقت گذرجاتاہے لیکن کردار زندہ ہمیشہ رہتاہے یہ کردار ہی ہے جو مستقبل میں لوگوںکی رہنمائی کرتاہے اسی سے مؤرخ فیصلہ کرتے ہیں کس نے کیا فائدہ لیا۔ اور۔قربانیاں دینے والے کون ہیں؟۔۔۔ اپنی گراںقدر خدمات سے نئی تاریخ لکھنے اور تاریخ پر احسان رقم کرنے والوںکی چرچا کرنا ہم سب پر فرض ہے آمریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریزہونے سے انکار جرأت کا بہت بڑا اظہارہے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم ان تمام رہنمائوںکی قربانیاں یادرکھیں جنہوںنے اپنی زندگی اس قوم کے نام کردی یہ لوگ فرشتے نہیں ہیں ان سے بھی غلطیاں، کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی ان کو درگذرکردینا چاہیے مجموعی طورپر ان تمام سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں ، ججز یا دیگر شخصیات جنہوں نے ماضی میں آمریت کے خلاف مزاحمت کی،قربانیاں دیں قیدو بند کی مشکلات سے دو چارہوئے ان سب کو ہر قسم کے تعصبات اور امتیازسے بالاتر ہو کر ان کی خدمات کو قومی سطح پر تسلیم کیا جائے اوران کو مراعات،اعزازات اور تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازا جائے حکومتی سطح پر ایسا کرنے سے لوگوں کو جمہوریت سے دلی لگائو محسوس ہوگا اس اقدام سے جمہوریت مزید مضبوط ہوگی ۔۔ جس کسی نے بھی ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈٹ کر جمہوریت کی بات کی، قربانیاں دی ہیں انہیں قومی ہیروقراردیا جائے۔۔ایک اوربات آمریت کا مقابلہ کرنے والوںکی خدمات کو عام آدمی تک اجاگر کیا جائے اس کیلئے ایک قومی ادارے کے قیام ناگزیر ہے۔۔آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والوں کی تصاویر پاکستان کی پانچوں صوبائی اسمبلیوں،پارلیمنٹ اور سینٹ بھی آویزاں کی جائیں۔ابھی جذبات امڈتے چلے آرہے ہیں۔۔۔بحث و مباحثہ ہورہاہے جہاں آج ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جارہی ہیں شیریناں بانٹی جارہی ہیںوہاں کچھ حالات کی ستم ظریفی پر ہچکیاں اور سسکیاں بھی لے رہے ہیں حالات معمول پر آئیں گے۔۔۔جذبات ذرا ٹھنڈے ہوئے۔۔۔گرد ذرا چھٹی کو احساس ہو گا باغی کی ہار سے جمہوریت کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے نوابزادہ نصراللہ خان کو کئی الیکشن ہارنے کے باوجود بابائے جمہوریت کہا جاتا ہے کچھ لوگ مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی بابائے جمہوریت قرار دے رہے ہیں اس ملک میں باغی ایک ہے۔۔۔جاوید ہاشمی ایک ہے اور تاریخ بتاتی ہے باغیوںکے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتاہے جیسے ملتان والوں نے کیا اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں نہ جانے کیوں مسز جمشید ہچکیاں اور سسکیاں لیتی پھرتی ہے۔