باغی الیکشن ہار گیا مگر۔۔؟

Election

Election

تحریر: ایم ایم علی
ملتان میں 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔بالاخر یہ الیکشن ہو ہی گئے جس کے نتیجے میں جاوید ہاشمی صاحب عامر ڈوگرسے ہار گئے، اس حلقے سے ہاشمی صاحب 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے تھے لیکن اسلام آباد میں دھرنوں کے بعد پی ٹی آئی سے پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد انہوں نے اس نشست سے استعفی دے دیا تھا اور 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا، البتہ ان کو مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل تھی دوسری طرف پی پی پی چھوڑ کر آنے والے عامر ڈوگر صاحب بھی آزاد امیدوار تھے لیکن ان کو پی ٹی آئی کی بھر پور حمائت حاصل تھی۔

اس حلقے میں عمران خان صاحب نے ان کے حق میں ایک بڑا انتخابی جلسہ بھی کیا تھا۔اس الیکشن میں ہاشمی صاحب تقریبا دس ہزار کے مارجن سے ہار گئے3 201کے الیکشن میں تقریبا اسی مارجن سے وہ جیتے بھی تھے۔یہ ضمنی الیکشن تو ایک حلقے میں تھا لیکن یہ الیکشن باغی کے حصہ لینے کی وجہ سے اور موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا اور میڈیا بھی اس ضمنی الیکشن کو بھر پور کوریج دے رہا تھا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ میڈیا نے اس ضمنی انتخاب کو لے کر ضرورت سے زیادہ سنسنی پیدا کر رکھی تھی۔

بعض حلقے جاوید ہاشمی صاحب کی اس ہار کو اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ سیٹ تو تھی ہی پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی اور پی ٹی آئی ہی دوبارہ جیت گئی اپ سیٹ تو اس صورت میں ہوتا کہ اگر یہ سیٹ مسلم لیگ (ن) کی ہو تی اور پی ٹی آئی جیت جاتی۔ لیکن یہاں پر ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ تحریک انصاف ایک طرف تو اسمبلیوں سے استعفے جمع کر ا چکی ہے اور خان صاحب تو ببانگ دہل ان اسمبلیوں کو جعلی اسمبلیاں قرار دے چکے ہیں، لیکن دوسری طرف اسی اسمبلی کی نشست کے حصول کیلئے پی ٹی آئی ایک آزاد امیدوار کی حمایت بھی کر رہی تھی۔ اور خان صاحب نے ملتان میں اسی حلقے میں انتخابی جلسہ بھی کیا اور شاہ محمود قریشی تو باقا عدہ عامر ڈوگر صاحب کی مہم چلاتے رہے۔اس انتخاب نے حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

Javed Hashmi

Javed Hashmi

یہ ضمنی الیکشن حکومت کیلئے بھی نوشتہ دیوار ہے اوران جماعتوں کیلئے بھی جو تبدیلی جلسوںاور اور دھرنوں کے ذریعے لانا چاہتی ہیں،ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ تبدیلی صرف ووٹ سے ہی آئے گی۔ حال ہی میں جو جلسہ پی ٹی آئی نے ملتان میں کیا بقول پی ٹی آئی کے یہ جلسہ ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا لیکن اگر دیکھا جائے تو الیکشن والے دن ٹر ن آوٹ توقع کے برعکس کافی کم رہا، اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کے لوگ جلسوں میں تو بھر پور شرکت کرتے ہیں لیکن ووٹ ڈالنے کیلئے اس جوش و خروش سے نہیں نکلتے ۔جاوید ہاشمی صاحب تو الیکشن سے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اگر میں ہار گیا تو تو الیکشن کے نتائیج قبول کروں گا اور جیتنے والے امید وار کو مبارک باد بھی دوں گا اور انہوں نے ایسا کیا بھی ۔ہمارے ملک میں ہارنے کے بعد اپنی ہا رکو تسلیم کیا جانا تو گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے ،ملک میں جاری ہار نہ مانے کی روش کے خلاف بھی باغی نے بغاوت کردی اور بڑے سیاستدان ہو نے کا ثبوت دیا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر دوسرافریق ہار جاتا تو کیا ہارنے کے بعد ان کی طرف سے بھی ایسا ہی ردعمل آتا ؟ کیوں کہ دوسری طرف سے صبح سے ہی شور مچایا جارہا تھا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی کی جاری ہے اور ان کی سوشل میڈیا پر بیٹھی ٹیمیں بھی پورا دن اس قسم کی الزام تراشی کرتی رہیں ۔دوسری طرف سے پوری تیاری کر لی گئی تھی کہ اگر الیکشن ہا رجاتے ہیں تودھاندلی دھاندلی کا شور مچادیا جائے۔اگر ہاشمی صاحب کے مخالفین ہار جاتے تو کیا وہ بھی ہاشمی صاحب کی طرح فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ؟۔ہار جیت تو زندگی کا حصہ ہوتی ہے لیکن ہارنے کے بعد اعلی ظرفی سے اپنی ہار کو قبول کرنا ہی اصل سپورٹس مین سپرٹ کی نشانی ہوتی ہے۔ ہاشمی صاحب کا یہ اقدام تمام سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔مختلف نجی ٹی وی چینلز پر بھی مختلف سیاستدان ہاشمی صاحب کے اس عمل کو سرا ہے بغیر نہ رہ سکے۔

جمہوریت کا راگ آلاپنے والے ہمارے سیاستدانوں کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے کہ اپنی ہار کو قبول کیا جائے۔ جاوید ہاشمی صاحب نے اپنی علالت کے باوجود بھر پور کمپین چلائی حالانکہ اس کمپین کے دوران ان کو کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا دوران کمپین ان کی گاڑی کو کئی مقام پر روک کر ان کے خلاف نازیبا نعرے بازی کی گئی ۔حتی کہ ایک بار ہاشمی صاحب جب ایک نماز جنازہ میں شرکت کیلئے گئے تو ایک جماعت کے کارکنوں نے ان کو نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا اور ان کے خلاف سخت نعرے بازی بھی کی۔اس تمام صورت حال کے باوجو د ہاشمی صاحب نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ۔مختصر یہ کہ کہ باغی الیکشن تو ہار گیا لیکن فراخدلی سے اپنی ہار کو تسلیم کر کے اخلاقی طور پر اپنے مخالفین پر بازی لے گیا۔

MM Ali

MM Ali

تحریر: ایم ایم علی