”شاہین پرواز سے گھبرانے کیوں لگے ہیں”

Pakistan Cricket Team

Pakistan Cricket Team

تحریر: مجیداحمد جائی

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 1992ء کا ورلڈکپ اپنے نام کیا تھا۔ہر طرف شاہینوں کی دھوم مچی تھی۔اپنے تو اپنے غیر بھی گیت گاتے تھے۔دشمن منہ بسورے رہ گئے تھے۔نہ کسی کا جادو ٹونہ کام آیا نہ کوئی ان کو خرید سکا۔پاکستانی ٹیم اپنے وطن کے لئے کھیلی اور سبز ہلالی پرچم ہر جگہ لہرانے لگا۔لیکن لیکن جب سے سیاست میں کھیل اور کھیل میں سیاست وار ہوئی ہے۔کھیل کاستیاناس ہو گیا ہے۔اب کھیل ،کھیل نہیںرہا ،کھیل کے ساتھ کھیلواڑ کیا جا رہا ہے۔سیاست کے کھلاڑی بیٹھے کھیل کر رہے ہیں اور عوام کٹ پتلی بنی ناچ رہی ہے۔شطرنج کی بدلتی چالیوں کی طرح عوام کے ساتھ کھیلواڑ کیا جاتا ہے اور تماشائی مزے لے رہے ہیں۔

بات ہو رہی تھی کھیل کی، جب کھیل کھیل ہی تھا تو تفریح بھی تھی۔عوام میں جنون بھی تھا،جوش بھی تھا،اور کھلاڑیوں میںجذبہ بھی ۔پاکستان کے میدان آباد تھے۔زرمبادلہ بھی مل رہا تھا۔عوام بھی خوش تھی۔غیر ملکی سیاح بڑے شوق سے ادھر کا رُخ کرتے تھے لیکن ستیاناس ہو سیاست کا،جب سے کھیل میں داخل ہوئی ہے۔پاکستان کے کھیل ویران ہو گئے ہیں۔کھلاڑی بک رہے ہیں۔دوسرے شعبوں کی طرح ان میںبھی کرپشن ،رشوت عام ہو گئی ہے۔پہلے یہی ٹیم وطن کے لئے کھیل کھیلتی تھی اب اپنے لئے کھیلتے ہیں۔پہلے ان کے بلے رنز کے انبار لگاتے تھے اور ان کی بلے بلے ہوتی تھی۔مخالف ٹیم کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اسے شکست فاش سے دوچار کرے۔

اب تو عجوبہ ہی ہوجاتا ہے جب کوئی کھلاڑی 25رنز کا ہندسہ عبور کرتا ہے۔ورنہ زیرو ،صفرپر جسے بچپن میں ہم ”انڈہ”کہتے تھے آوٹ ہو کر میدان سے باہر ہو جاتے ہیں۔تماشائی ان کاسواگت انڈوں اور ٹماٹروں سے کرتے ہیں۔
مہارت یافتہ باولر ڈورتے ہوئے ایسے لگتے ہیں جیسے ابھی گِرے یہ گِرے۔اتنی ناقص کارکردگی کہ سر شرم سے ہمارے سر جھکے جاتے ہیں لیکن ان کو شرم نہیں آتی۔

حالیہ سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف ہماری ٹیم خاطر خواہ کارکردگی نہیں کر پائی۔کیسے کرتے؟یوں لگتا تھا جیسے ان کے لبوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ ،پیر بھی باندھے ہیں۔آسان کیچ ڈراپ کر دیتے ہیں۔فیلڈنگ ایسی کہ گیند ان پر ہنستی گزر جاتی ہے۔یہ اچھلتی کودتی گیند کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ہر کھلاڑی اداس ،اداس گم صم نظر آتا ہے۔ان کے چہرے مایوسی کا لبادہ اوڑھے نظر آتے ہیں۔کم از کم کھیل کو تو کھیل سمجھا جاتا۔مگر کیا کریں پھوٹی قسمت ہماری۔

مگر کہتے ہیںخربوزے کو دیکھ خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ہماری ٹیم نے سیاست کے کھلاڑیوں کو دیکھ کر اپنے انداز بدل لیے ہیں۔ایک ٹیم کئی گروپوں میں بٹ گئی ہے۔معین خان اپنی ما ر رہا ہے تو وقار یونس اپنا وقار دکھا رہے ہیں۔آپس میں نفرتیں بڑھ گئی ہیں۔کوئی کھلاڑی وطن کے لئے کھیلنے کو آمادہ نظر ہی نہیں آتا۔

سبھی جانتے بھی ہیں کہ عوام کے لاکھوں ہم پر خرچ ہوتے ہیں۔2015ء کا ورلڈ کپ نزدیک ہے ۔کوئی حکمت عملی کا مظاہرہ نظر نہیں آتا۔سیاستدانوں کے طرح ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ،ایک دوسرے گالی گلوچ،بُرا بھلا کہہ رہے ہیں۔مجھے تو یوں لگتا ہے یہی حال رہا تو شاہین پرواز سے پہلے ہی منہ چھپاتے پھریںگے۔جس طرح کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند لیتا ہے ۔نجانے شاہینوں کی پرواز میں کوتاہی کیوں ہو رہی ہے۔ان کی اڑان میں دم کیوں نہیں رہا؟۔ان کے پر کس طاقت نے کاٹ دیئے ہیں۔پہلے جہاں آسمان کو چھُوتے تھے

Politics

Politics

اب اڑان بھرنے سے پہلے ہی ان کے پر جواب دے جاتے ہیں۔ نجانے اس پاک دھرتی کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔سیاست کے میدان توآباد ہو رہے ہیںلیکن کھیل کے میدان ویران پڑے ہیں۔لوگ مر رہے ہیں،ایک دوسرے کے گربیان ہاتھوں میں ہیں۔گولیاں، دھماکے معمول بن گئے ہیں۔جھوٹ کثرت سے بولے جاتے ہیں۔ لیکن کھیل کے میدان کوئی آباد کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس ملک کے باسیوں کو یورپ کی فضا،یورپ کا ماحول لے ڈوبا ہے۔انہوں نے اپنے گند یہاں پھیلا دیئے ہیں اور خود ترقی کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں۔انہوں نے ہمارے آبائواجداد کے اُصول اپنا لیے ہیں اور ہم یورپی کلچر کو سینے سے لگا چکے ہیں۔

اپنی ثقافت ،اپنے کلچر کو بھول چکے ہیں۔ اے کاش! 2015ء کے ورلڈ کپ سے پہلے ہمارے کھلاڑیوں کے رویوں میں تبدیلی آجائے۔ان کے ضمیر جاگ اٹھیں،تما م نفرتیں ،دشمنیاں بھلا کر یک جان ہوکر وطن پر مر مٹیں۔جو ان کو خریدنے کی کوشش کرے،یا ان کو مجبور کرے،ان کو بے نقاب کریں۔سیاست کی بھنک جو پڑ چکی ہے اس پر ایمانداری،حب الوطنی کا اسپرے کرکے ان کا صفایاکر دیں۔صرف اور صرف وطن کے لئے کھیلے اور پاک وطن کا نام روشن کریں۔جب جذبہ حب الوطنی سے شرشار ہو کر کھیلیں گے تو کوئی ان کو خرید نہیں پائے گا۔جب ہم بکے گے نہیں تو جیت ہماری ہوگی۔

جب ہم اپنے نفس سے جنگ جیت جائیں گے تو کھیل میں جیتا آسان ہو جائے گا۔جب صداقت کے جذبے ہوں گے تو دنیا کی طاقت سے طاقتوار ٹیم بھی ان شاہینوں کو زیر نہیں کر سکے گی۔ہم ہر میدان میں مرد مجاہد بن جائے گے۔جیت ہماری ہوگی شرط یہ ہے ہم اس راہ پر قدم بڑھیں تو سہی۔ورنہ تاریخ گواہ ہے کتنے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ان کو کوئی یاد تک نہیں کرتا۔

Abdul Majeed Ahmed

Abdul Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com