ملتان کا الیکشن سیاستدانوں کے لیے انا کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ اس الیکشن میں کئی امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ ویسے تو جو بھی شخص الیکشن میں حصہ لیتا ہے وہ جیت کی امید لگا کربیٹھا ہوتا ہے مگر اصل مقابلہ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر کے درمیان تھا۔دونوں امید وار بظاہرآزاد تھے مگر اندرون خانہ ان کو مختلف سیاسی جماعتوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ عامر ڈوگر کے لیے تو عمران خان نے ملتان میں جلسہ کیا تھا مگر نہ جانے پی ٹی آئی نے ان کو باضابطہ ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ شائد اس لیے کہ انہوں نے خود تو قومی اسمبلی سے استعفے دیے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف جاوید ہاشمی جو حال ہی میں عمران خان کو چھوڑ کرآئے تھے ان کی حمایت میں ن لیگ پیش پیش تھی۔ جاوید ہاشمی کی حمایت ن لیگ کی مقامی قیادت نے کی مگر اعلیٰ قیادت خاموش رہی۔
آج جس وقت نتائج آنا شروع ہوئے تمام امیدواروں کے دل دھک دھک کرنا شروع ہوئے مگر حسب توقع اصل مقابلہ دوامیدواروں کا ہی تھا۔ ہاشمی صاحب نے تو ابتدائی نتائج دیکھ کر اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنا شروع کردیا۔ ہاشمی صاحب کاسیاسی ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور میں پہلے بھی ان کے بارے میں کالم لکھ چکا ہوں۔ ان کی ایک اچھی بات کہ وہ جو کہتے ہیں سرعام اور برملا کہتے ہیں۔ وہ جس پارٹی میں رہے اور جو کہا وہ منہ پر کہا خواہ وہ عمران خان ہو ، نوازشریف یا جماعت اسلامی۔
عامر ڈوگر کی جیت کو مد نظررکھتے ہوئے شیخ رشید صاحب نے تو فوراًہاشمی کی شکست کو دھرنوں کی کامیابی کا انعام دے دیا۔ شیخ صاحب کی تو بات ہی نرالی ہے ۔ ان کی دھرنوں کی ابتدا سے لیکر اب تک کئی پیشین گوئیاں ہوچکی ہیں اور اتنی پیشین گوئیوں میں کوئی ایک دو کامیاب ہوجانا بہت بڑی بات نہیں۔ مجھے یاد جب ہم لڈو کھیلتے ہیں تو دانا پھینکتے ہوئے ہر دانے پر بولتے تھے”یہ لو چھکا”اور پوری گیم میں کبھی نہ کبھی ہمارے بولنے پر چھکا آہی جاتا تھا تو اس پر ہم بہت خوش ہوتے کہ دیکھا میں نے تو پہلے بول دیا تھاکہ چھکا آئے گا۔اسی طرح شیخ صاحب بھی آج اپنی خوشی کا اظہار کرسکتے ہیں کہ یہ دھرنوں کی کامیابی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی میدان میں 2013 کے الیکشن میں یہی لوگ نعرہ لگا رہے تھے ”ایک بہادرآدمی ، ہاشمی ہاشمی” آج جب وہ ان کوچھوڑ گئے تو ملک عامر ڈوگر ان کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ کل تک جب ہاشمی صاحب ن لیگ میں تھے تو وہ ن لیگ کے بہادر آدمی بنے ہوئے تھے مگر آج اس میدان میں پی ٹی آئی اس بہادر آدمی کو داغی کہہ رہی ہے اور ن لیگ والے خاموش مگر اندرون خانہ اس کی حمایت کررہے ہیں۔
سیاستدانوں کے لیے ایک جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میںشامل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ فخر سے جلسوں میں اُسی قیادت پر تنقید کرتے ہیں جن کو وہ چھوڑ کرجاتے ہیں۔ کبھی ان سیاستدانوں نے عوام سے پوچھا ہے کہ ان کے دل میں ایسے لیڈر کی کتنی عزت ہے؟وہ ایسے لوگوں کو کس نام سے یاد کرتے ہیں؟
Javed Hashmi
ہاشمی کے ساتھ آج وہ ہی ہوا ہے جس کی ہمیں توقع تھی کیونکہ سارے ووٹرز کے ضمیر مردہ نہیں ہوسکتے ۔ہاشمی صاحب کو یاد ہوگا جب وہ ن لیگ چھوڑکر جارہے تھے تو ان کے روکنے کے لیے کارکن ان کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے مگر ہاشمی صاحب نے ایک نہ مانی۔نہ آج تک اس مجبوری کا تذکرہ کیا اگر وہ اس مجبوری کی وضاحت کردیتے تو شاید ووٹرز ان کو معاف کردیتے اور آج نتائج کچھ اور بھی ہوسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ ضمیر ن لیگی ووٹر ز کس طرح ہاشمی صاحب کی حمایت کرتے۔ یہ اوپر بیٹھے سیاستدان بیشک ایک دوسرے کو قبول کرلیں مگر ووٹرزایسے لوگوں کو کسی اور نام سے یاد رکھتے ہیںاور اس لیے وہ اپنے دل کی بھڑاس صرف ووٹ کے ذریعے ہی نکال سکتے ہیں۔
یہاں اب مسئلہ ہاریاجیت کا نہیںکیونکہ ہار جیت سیاستدانوں کے لیے ہوتی ہے عوام کے لیے نہیں۔ میری نظر میں تو یہ عوام کی جیت ہے کیونکہ عوام نے ثابت کردیا کہ وہ لوٹا کریسی کو نہیں بلکہ ڈیموکریسی کو پسند کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر یہ خود جمہوریت پر عمل پیرا نہیں ہوتے اگر وہ ایک دوسرے کی جماعت کے لوگوں کو لینے کی بجائے نئے لوگوں کو الیکشن لڑائیں تو ہمارے ملک میں ترقی کی بھی ہوگی اور لوٹا کریسی سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔