میں ابھی آفس پہنچا ہی تھا کہ میرا دوست اداس چہرہ لئے روہانسی روہانسی سا میرے پاس آیا۔میں نے پوچھا بھائی!خیر تو ہے صبح صبح منہ لٹکا ہوا ہے۔مجید بھائی ۔کیا بتائو میرے ملک میںنجانے درندے کہاں سے آگئے ہیں؟۔ آج ایک اور میرے وطن کی بیٹی نے خود سوزی کر لی ہے۔اوباش لڑکیوں نے اس کی عصمت خاک میں ملادی۔انصاف کے دروازہ پر دستک دی،مگر کسی نے کان نہ دھڑے۔تنگ آکر خود سوزی کر لی۔ اس ملک میںکب تبدیلی آئے گی۔؟کب نظام بدلے گا؟کب انصاف ملے گا؟یہ وہ سوال تھے جو میرے دوست کے ساتھ ساتھ میرے وطن کی مجبور ،بے کس،ڈری ہوئی،سہمی ہوئی،اپنے حق سے محروم،ظلم کا شکار بیٹیاں بھی کر رہی ہیں۔
مجھے حیرت کا شدید جھٹکا اس وقت لگا جب میں نے ایک میگزین میں رپورٹ پڑھی۔لکھنے والا یورپ کے ایک شہر کی بات کر رہا تھاکہ وہا ں کے مرد اپنی عورت کے سوا دوسری عورت کی طرف دیکھتے تک نہیں۔اپنی دُنیامیں مگن،اپنی ہی عورت کو دیکھتے مسکراتے رہتے ہیں۔لکھنے والا کئی دن اسی طاق میں لگا رہا کہ ان کی خامیاں پکڑ سکے مگر مجال ہے کہیں کوئی ایک ایسا واقع گزرا ہو۔۔یورپ جیسے ہمیں آزاد خیال،فحاشی کا گھر سمجھتے ہیں۔ہم سے کئی درجے اچھابھی ہے ،اصول پرست بھی۔ادھر ہم پاکستانی ہو کر ،مسلمان ہو کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔پھرے بھی کیوں ناں،ہمارے کرتوں پر پوری دُنیا تھو تھو کر تی ہے۔ہم اپنی ہی عزتوں کی تاک میں لگے ہوئے ہیں۔وحشی نظروں سے ان کا تعاقب کرتے ہیں۔
پاکستان اسلامی ملک ہے۔اسلام کے نام پر ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر انگریزوں سے حاصل کیا۔ہندووں کے ساتھ ہم اس لئے نہیں رہ سکتے تھے کہ ان میں اور ہم میں زمین آسمان کا فرق تھا۔اسی لیے تو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔تاکہ ہر فرد کو بنیادی حقوق ، آزادانہ، زندگی گزارنے کے مواقع مل سکیں۔مگرافسو س صدا افسوس۔۔۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 67 سال بیت چکے۔بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں ۔بلکہ بگڑتے چلے گئے ہیں۔ہم نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی چلا دی ہے۔عوام بھوک،پیاس سے مررہے ہیں۔ایک طرف بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے تو دوسری طرف ”گراں فروشوں”نے غریبوں کا جینا محال کر دیا ہے۔سیاست دان جلسوں سے،دھرنے مرنے سے باہر نہیں آرہے۔
ان تمام بُرائیوں کو بالا طاق رکھ کر صرف اور صرف نسوانی حقو ق کی بات کی جائے تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ہماری عورتیں،اپنوں کے ڈر سے ڈری ہوئی،خوف زدہ ہیں۔کہیں ظلم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں تو کہیں بیٹیوں کو ونی کی بھنیٹ چڑھایا جا رہا ہے۔کہیں جائیداد کے بٹوارے کے ڈر سے قرآن پاک سے شادی کرائی جا رہی ہے۔کہیں جسمانی،نفسیاتی تشدد کیا جارہا ہے۔
ہماری بیٹیاں گھروںمیں تشدد کاشکارہیں تو گھر کی چار دیواری کے باہر بھی انسانی روپ میں درندے دنڈناتے پھرتے ہیں۔جو وحشی کتوں کی طرح ان بیٹیوں کو چیر کھانے کو بے تاب ہیں۔آوارہ لڑکے،جاگیرداروں کی بگڑی اولادیں شیطانی روپ میں انہیں ڈبوچنے کے لئے مورچے لگائے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی، کالج اسکول سے لڑکیوں کے اغوا ء معمول بن گئے ہیں۔اب تو کالج، یونیورسٹی کے پروفیسر بھی منہ کالا کرنے پر تُل گئے ہیں۔جو روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔جن کی اپنی بیٹیاں بھی کسی نہ کسی کالج، یونیورسٹی میں جاتی ہوں گی،نہیں تو گھر کے اندرتو لازمی ہو ں گی۔
پھر بھی اپنے ہم منصب کی بیٹیوں کی عزتیں خاک میں ملانے میں لگے ہوئے ہیں۔کئی ضمیر فروش،دولت کے نشے میںدھت جنسی تشد د کرتے بھی اور جسم فروشی میں ملوث بھی ہیں۔قوم کی بیٹیاں سمگل کرتے ہیں۔معاشرہ ان کو ”دلال”کا لقب دیتا ہے۔میرے وطن کی بیٹیاں دوبئی،دوحہ،قطر،یورپ میں سمگل ہورہی ہیں۔
Newspapers
اخبارات کو اٹھا کر دیکھ لیں۔آئے روز انہی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔میڈیا چیخ چیخ کر اجڑی بیٹیوں کی داستانیں سنا رہا ہے۔قانون سو رہا ہے ،بلکہ قانون بنانے والے بھی اس گنگا میں ڈوب رہے ہیں۔کہیں نوکری کا جھانسہ دے کر بے آبرو کیا جاتا ہے تو کہیں گھروں سے گن پوائنٹ پر اغوا ء کیا جاتا ہے۔کہیں اوباش لڑکے اجتماعی زیادتی کرکے لاش سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں۔دیہاتوں میں جاگیرداروں کے بیٹے درندگی کی انتہا کررہے ہیں۔کھیتوں میں کام کرنے والے لڑکیوں،عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
حیرت ہے کوئی رپورٹ تک نہیں لکھتا ۔قانون خاموش ہے،مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں۔آزاد عدلیہ کے نعرے لگائے جاتے ہیں ،عدلیہ بھی صرف از خود نوٹس تک محدود ہے۔ بیٹی رب تعالی کی طرف عظیم نعمت ہوتی ہے۔مگر معاشرے نے بوجھ سمجھ لیا ہے۔اسے ذلیل و خوار کر دیا ہے۔اس کی عزت کی پر خچیاں اڑا رہے ہیں۔اسے اس معاشرے میں پیدا ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت تصورکیا جاتا ہے۔میرے نزدیک جس گھر میں بیٹی نہیں وہ گھر قبرستان سے بھی بدتر ہے۔
میرے آقا تاجدار ۖ نے اپنی بیٹی کو جگر گوشہ قرار دیا۔ایک حدیث کا مفہوم ہے میرے آقا حضرت محمد ۖ نے فرمایا جس شخض کے گھر میں دو،تین بیٹیاں ہوں اور اس شخض نے انکی بہترین تربیت کی اور انکی شادیاں کر دی وہ شخض جنت میں میرے ساتھ(دو انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)یوں میرے برابرہوگا۔دور جاہلیت میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔اس ڈر سے کہ کہیں ان کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے۔ہم تو دور جاہلیت سے بھی بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔
ہمارے پیارے نبیۖ نے عورت کو اعلیٰ مقام دیا،وراثت میں حقدار ٹھہرایا۔گھر کی رونق فرمایا۔گھر کی زنیت قرار دیا۔مگر ہم اہل مسلم ہوتے ہوئے بھی ،دور جاہلیت سے کہیں دور جا پہنچے ہیں۔اپنی ہی بیٹیوں کو زحمت قرار دے رہے ہیں ان کو وراثت سے بے دخل کر رہے ہیں۔ان کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں۔ان کی عزتوں کو نیلام کر رہے ہیں۔ان کے ساتھ جانوروں سا سلوک کرتے ہیں۔آج مسلم معاشرے میں عورت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔گھروں میں ظلم کی انتہا کی جارہی ہے تو گھروں سے باہر انسانی روپ میں درندے نوچنے کو بے تاب ہیں۔
کئی بیٹیاںانصاف مانگتے مانگتے خود سوزی کر گئیں۔نہ قانون کو فرق پڑتا ہے نہ عدلیہ جوش میں آتی ہے۔نہ حکومتوں کی غیرت جاگتی ہے۔سیاستدان تو شراب اور شباپ کے رسیا ہوتے ہیں۔ کہیں مختیاراں مائی کے روپ میں پنچائیت میں تماشہ بن جاتیں ہیں تو کہیں آمنہ کے روپ میں اوباشوں کے ہاتھو ں لٹ جاتیں ہیں۔اس ملک کے ہر گلی محلے میں بیٹیاں لٹ رہی ہیں۔ان کے آنچل روندے جاتے ہیں۔انکے جسموں سے کھیلا جا رہا ہے۔ان کو لذت شیطانی کے استعمال کیا جا رہا ہے۔کہیں بازار حسن کا نام دیا جاتا ہے تو کہیں طوائف کا لیبل لگایا جاتا ہے۔
میں نے بڑے بڑے عزت کے ٹھکیدار دیکھے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرتے پھرتے ہیں اور دوسروںکی بیٹیوں کی عزتوںسے کھیلواڑ کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے ہر شعبے،ہر محکمے میں انسانوں کے روپ میں درندے پھرتے ہیں۔کسی بھی مجبور بے سہارا ،بے کس یتیم اکیلی لڑکی کو دیکھ کر ان کی رانیں ٹپکنے لگتی ہیں۔نہ ان کے لئے قانون ہے نہ عدالتیں،یہ آزاد ہیں اورآزاد دنڈناتے رہیں گے۔
سیاستدانوں نے جلتی پہ تیل ڈالا ہے ،قوم کی بیٹیوں کو ورغلاکر جھوٹے وعدوں کی آڑ میں سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ان سے ناچ ،ڈانس ،رقص کروایا جا رہا ہے۔عزتوں کے رکھوالے عزتوں کی پامالی پر اُتر آئیں تو قیامت آنے کی نشانیاں ہی تو ہیں۔اس ملک میں نام نہاد ملائ،مولوی،پروفیسر،ادیب،اس گنگا میں نہا رہے ہیں۔ہم یورپ کا رونا روتے ہیں۔میڈیا کو بُرا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ قصور ان کا نہیںہمارا اپنا ہے۔ہمیں عقل و شعور سے نوازاہ گیا ہے۔ اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے۔ہم مریخ سے بھی آگے نکل گئے ہیں لیکن اپنی بیٹیوں،عورتوں کی عزت کرنا نہیں سیکھ پائے۔یہ جانتے ہوئے بھی ان کے بغیر یہ کائنات،یہ دُنیا بے نور،بے رنگ ادھوری سی ہے۔دُنیا کی تمام رنگیناں ،تمام رونقیں ان کے ہی دم سے ہیں۔
ان کی عزت کرنا سیکھ جائے تو جنت ہمارا راہ تکتی ہو گی،ورنہ جہنم کا ایندھن ۔ہم بُرائی رسوائی والا راستہ چھوڑ کر صراط مستقیم والا راستہ اختیار کریں تو آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ تبدیلی دھرنوں سے، جلسوں، لانگ مارچ ،انقلاب سے نہیں آئے گی۔تبدیلی سوچ سے آئے گی۔تبدیلی لانی ہے تو سو چ کی لائو،ذہنوں میں منفی سوچوں کا گلہ کاٹ کر مثبت سوچوں کو جگہ دو۔تاکہ معاشرے میں عزت مقام پاسکیں۔آج ہزاروں این جی او ز حقو ق نسواں کے لئے سر گرم ہیں۔مگر آج تک عورت کو تحفظ نہیں مل سکا۔ان کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔کیسے آئی گی ہم دوسروں کو بدلنا توچاہتے ہیں لیکن خود کو نہیں بدل سکے۔
بس میری تو اپنے رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ آئے دوجہانوں کے مالک،آئے میرے اللہ!میرے وطن کی بیٹیوں کی حفاظت فرما۔ہمارے بگڑتے معاشرے کو راہ راست پر گامزن کر دے۔ہماری عزتوںکی تو ہی حفاظت فرمانے والاہے۔توہی حفاظت فرماآمین ثم آمین!۔