میاں شہباز شریف کی زیرِ قیادت سیلاب متاثرین کو مالی امداد کی دوسری قسط کی فوری فراہمی کے حوالے سے گزشتہ روز لاہور میں جو اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مالی امداد کی دوسری قسط متاثرین کے گھروں اور فصلوں کے نقصانات کامکمل سروے کرنے کے بعد اس کا تخمینہ لگا کر ادا کی جائے گی اور پھر اس سروے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی کروا یا جائے گا تاکہ کوئی بھی مستحق مالی امداد سے محروم نہ رہ سکے اور یہ کام متاثرین کو اُن کے گھروں اور فصلوں کے نقصانات کا معاوضہ بیک وقت ملے تاکہ اُنہیں اپنے کسی نقصان کا احساس تک نہ ہو اور وہ جلد از جلد اپنی اصلی حالت میں واپس آسکیں
اس دوران سی این جی سیکٹر ،اس شعبہ سے وابستہ افراد کے مسائل اور بے روزگاری کا خاتمہ بھی زیرِ بحث رہا،جبکہ آخر میں وزیرِ اعلیٰ نے پینے کے صاف پانی سے محروم شہریوں کو صاف پانی کی فوری فراہمی سے متعلق بھی کئی احکامات وہدایات جاری کیں کیونکہ اس کے بھی انسانی صحت پر براہ راست بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،مختصر یہ کہ اس اجلاس کے میں بھی انہوں نے ماضی کی طرح خود کو قوم کا ماں جیساخیر خواہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور خدا کرے کرتے ہی رہیں،
کیونکہ ماں ہی دُنیا کی وہ واحد ہستی ہے جس سے بڑھ کر کوئی کسی کونہیں چاہتا ، اور یہ ہستی اولاد کی کمائی نہ کبھی کہیں ضائع ہوتی برداشت کرتی ہے اور نہ کہیں لٹتی دیکھ پاتی ہے،وہ اس کی ہر حال میں محافظ رہتی ہے چاہے اُسے جان ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے ،ماں اولاد کے ہر قول و فعل پر ہی بڑی کڑی نظر رکھتی ہے،جیسا کہ آج کل وزیرِ اعلیٰ پنجاب چارو ںاطراف پر نظر رکھے دکھائی دے رہے ہیں ،اُنہیں تب بھی اپنی قوم کی ہی فکر رہتی ہے جب ملک بھر کے لیڈران کو اقتدار کی حوس نے پاگل کیاہوا ہے اور وہ کہیںکفن خریدتے و تقسیم کرتے پھرتے دے رہے ہیں
تو کہیں خوب رو لڑکیاں نچا کر پاگل اپنے پاگل پن کو چھپانے میں دکھائی دیتے ہیں جبکہ میاں صاحب کہیں کسی کا ننگا بدن ڈھانپتے تو کہیں کسی کی بھوک پیاس مٹانے کیلئے قوم میں لباس وراشن تقسیم کرتے ایسے دکھائی دیتے ہیںجیسے زور کی بارش میںکوئی چڑیا اپنے بھیگے بچوں کے منہ میں خوراک ڈالتی دکھائی دیتی ہے ،اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ وزیر ِ اعلیٰ پنجاب سے خادمِ اعلیٰ ،اور خادمِ اعلیٰ پنجاب سے اب پنجاب کی ماں درجہ پانے کیلئے کوشا ں ہیں ،کیونکہ ماں ہی وہ ہستی ہوتی ہے جسے اپنے سکون کی بجائے اولاد کا سکون زیادہ عزیز ہے جو کہ ایک قابلِ تحسین اقدام ہے مگر اس کے ساتھ ہی قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اُن کے اِن تمام تر اقدامات کے باوجود کرپشن کا بے لگام گھوڑا بے لگام کا بے لگام ہی ہے جوکہ کسی ایک محکمے میں نہیں بلکہ ہر محکمے میں ہی بے لگام ہے فرق صرف اتنا ہے
کچھ محکمے بدنام ہیں اورکچھ کاہاتھ کی صفائی کے بادشاہوں میں ایک اپناہی مقام ہے جوکہ اپنے فن میں اس قدر ماہر ہیں کہ اپنا کام بھی دکھا رہے ہیں اور کسی کو کان وکان خبر بھی نہیں ہونے دیتے ،اوراگر کہیں کوئی پکڑا بھی جائے تو چند یوم کے ٹرائل کے بعد اسے صرف بحال ہی نہیں بلکہ مذید ترقی سے بھی نواز دیا جاتا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل پاسکو کے ایک آفیسر کے MCB بنک کے 160 جعلی پے آرڈر بنوا کر باردانہ حاصل کرنے کے بعد اس میں ذاتی گندم بھر کر بیچتے ہوئے اور 2012 میں سرکاری گندم سے بھرے 2ٹرک بیچنے کیلئے لے جاتے وقت چیچہ وطنی کے قریب رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باجود چند یوم کے ٹرائل کے بعد اسے صرف بحال ہی نہیں بلکہ مذید ترقی سے بھی نواز دیا جاتا ہے
Punjab
اب اس شخص کی ماہانہ تنخواہ 32 ہزار جبکہ ماہانہ اخراجات 1لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اس کے باوجود اس کے پاس جنوبی پنجاب میں واقع ایک معروف شہر کے اندر تقریباً چار کروڑ روپے مالیتی اعلیٰ تعمیر شدہ 2رہائشی پلاٹ بھی ہیں،یہ وہ حقائق ہیں جن سے متعلق صرف محکمہ ہی نہیں بلکہ عوام بھی بخوبی آگاہ ہے اور جن سے کوئی بھی آگاہ نہیں وہ آئندہ کے کسی کالم میں عرض کروں گا ،
خیر بات ہو رہی تھی وزیرِ اعلیٰ کے ایسے اقدامات کی جن کی بدولت وہ قوم کی ماں کا درجہ پا سکیں تو اُن کے اِن متذکرہ بالا تمام تر اقدامات پر پانی پھیرنے کیلئے اُنہیں ہی کے ماتحت محکموں میں ہونے والے ایسے چند ایک کار نامے ہی کافی ہیںجن کی روک تھام کے بغیر وہ عوامی فلاح کے جتنے چاہے منصوبے بنا لیں اُن پر عمل کروا لیں،چاہے شلوار اونچی کرنے کی بجائے نیکر پہن کر سیلاب متاثرین کے پیچھے بھاگ لیں تب بھی وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کرپشن کا مکمل خاتمہ نہیں کر پاتے اور اس کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا
جب تک رشوت کی سزا قتل ،دہشت گردی یا زنا بالجبرکے برابرکرتے ہوئے دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی طرح اِن کی بھی علیحدہ ایسی خصوصی عدالتیں قائم نہیںکر دی جاتیں جِن میں کسی بھی قسم کی کوئی مالی یاسیاسی مداخلت نہ ہو سکے ،مگر ایسا کرنے کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے لہذا مختصر طریقہ یہی ہے کہ جیسے میاں صاحب کا طیارہ کسی کے جبر کا شکار کسی حوا کی بیٹی کو انصاف دلانے کیلئے اُتر تا ہے
ایسے ہی قوم کا خون پینے والے درندوں کو نکیل ڈالنے کیلئے بھی اُترنا شروع ہوجائے تو ممکن ہے کہ اس گھوڑے کو لگام ڈل جائے ورنہ نہیں اور اگر وہ ایسا کر لیں جو کہ اُن کیلئے کوئی زیادہ مشکل نہیں تو پھرواقع ہی وہ خادمِ اعلیٰ پنجاب کی بجائے پنجاب کی ماں کہلانے لگیں گے اور آج جہاں پاکستان کے دیگر صوبوں کی اپوزیشن جماعتیں اُن کا نام لے کر اپنی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کل یہاں پوری دُنیا اُن کی مثالیں دے گی ،(فی امان اِللہ)
Muhammad Amjad khan
تحریر: محمد امجد خان Email:Pardahchaak@gmail.com Mobe No:0343 6999818