کیا خوف میرے شہر کو سونے نہیں دیتا؟

Law

Law

تحریر : ایم سرور صدیقی

خبر ایسی کہ اس نے امن و امان کی صورت ِ حال اور حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔۔۔یہ واقعہ ان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کررہا ہے جس سے ہمارے حکام، قانون نافذ کرنے والے ادارے، درجنوں خفیہ ایجنسیاں اور حکومتی عہدیدار ایک عرصہ سے صرف نظر کررہے ہیں شاید ان کا خیال ہو کبوترکی مانند آنکھیں بند کرنے سے بلی کی نظروں سے چھپا جا سکتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ عالمی شہرت کی حامل سماجی شخصیت عبدالستارایدھی کو ڈاکو یرغمال بناکر کروڑوں نقد اور 5 کلو سونا لے گئے ان میں لوگوںکی امانتیں بھی شامل تھیں ساغر صدیقی نے برسوں پہلے ہی کہہ دیا تھا

جس دور میں لٹ جائے فقیروںکب کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اب یہ تو معلوم نہیں سلطان سے ہوئی ہے یا عوام موجودہ سلطان کو ووٹ دینے کی بھول کر بیٹھے ہیں ۔۔۔۔چوری ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان نے لوگوںکا جینا حرام کررکھاہے کئی ماہ قبل ننکانہ صاحب سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رانا جمیل حسن المعروف گڈخان کو دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر روکا اور اہلیہ سمیت اغواء کرلیا بعد ازاںان کی اہلیہ کو چار گھنٹے بعدرہا کردیا اور اپنے آپ کو طالبان کا ساتھی قرار دینے والوں نے رانا جمیل حسن المعروف گڈخان کی رہائی کیلئے 5کروڑ تاوان کا مطالبہ کیااس واقعہ کا سب سے بڑا پہلو نامعلوم ملزمان کی دیدہ دلیری ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے

یہ ان کی طاقت، نیٹ ورک اور کامیاب منصوبہ بندی کا مظہرہے ملک میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوںمیں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے کراچی ،پشاورکے بعد پنجاب کے بڑے شہر بھی اس کی زدمیں ہیں کہا جارہاہے کہ اغواء برائے تاوان نے باقاعدہ دھندے کی شکل اختیارکرلی ہے اب تلک مالدار لوگوںکے ساتھ ساتھ کئی وزیر، مشیر بھی اغواء ہوچکے ہیں جنہیں بھاری تاوان دے کر بازیاب کروایا گیا گذشتہ سال لاہور، کراچی، ملتان، اسلام آباد ،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی 16 بڑی کاروباری شخصیات کو کروڑوں تاوان دیکر رہا کروانے کی اطلاعات ہیں ان کے لواحقین نے FIR تک درج نہیں کروائی اور حکومت بھی ان کیلئے کچھ نہیں کرسکی۔

سابق وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے ابھی تک بازیاب نہیں کروائے جا سکے۔حالات وواقعات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اغواء برائے تاوان ایک منظم کاروباربن چکاہے۔۔۔اس سلسلے کو 5 مراحل میں پایہ ٔ تکمیل تک پہچایا جاتاہے اغواء کیلئے مخبری۔کڈنیپنگ، محفوظ جگہ تک رسائی، قانون نافذ کرنے والے اداروںسے بچائو اور تاوان وصول کرنا ان سب کاموں کیلئے بڑے سائیٹیفک طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کسی بھی شخص کو صرف اغواء کرکے 2 سے 4 لاکھ کے عوض اگلی پارٹی کو منتقل کردیا جاتاہے شنید ہے

Technology

Technology

اس وقت مختلف شہروں میں 20 سے زائد اغواکارگروہ موجود ہیں کئی یرغمالیوں کی باقاعدہ نیلامی بھی کی جاتی ہے یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ اغواء کار جدید اسلحہ اور بہتر ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں انکے پاس آمدو رفت کیلئے بہترین وسائل ہیں ا نفارمیشن کا یہ حال ۔۔کہ مغوی کا خاندان اگر سیکورٹی داروںسے رابطہ بھی کرلے انہیں لمحہ بہ لمحہ کی خبر ہوتی رہتی ہے یہ بات اس لئے یقینی طورپر کہی جا سکتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروںکے بعض اہلکار ان کیلئے کام کرتے ہیں۔جن اغواء کاروں کی مغوی کے گھر والوںسے ڈیل کامیاب نہیں ہوتی وہ ”پرندے” طالبان کو فروخت کردیتے ہیں۔

عوام میں خوف وہراس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اغواء کار مطلوبہ رقم وصول کرنے کے بعد بھی مغوی کورہا نہیں کرتے۔بعض سنگدل رقم بھی لے لیتے ہیں اور مغوی کو قتل بھی کردیتے ہیں حکومت ابھی تک ان کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب نہیںہوسکی جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں ان لوگوں کا شاید خیال ہو اغواء برائے تاوان پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ کچھ ملزم دہشت ڈالنے کیلئے بھی طالبان کا نام استعمال کررہے ہوںگے قانون نافذ کرنے والے اداروںکواس پہلو کی طرف خصوصی طورپر دیکھنا چاہیے حالات بتاتے ہیں پاکستان میں پچھلے دو عشروں کے دورن امن وامان کی صورتِ حال دن بہ دن مخدوش ہوتی چلی گئی ہے جب سے 9/11 کا واقعہ ہواہے

طالبائزیشن کی آڑمیں پاکستان ٹارگٹ بن گیاہے جس ملک میںعبدالستارایدھی جیسے لوگ محفوظ نہ ہوں وہاں اور کیاکہا جا سکتاہے ۔۔ایک طرف چوروں، ڈکیتوں،راہزنوں اور دیگر جرائم پیشہ افرادنے عوام کا جینا عذاب بنا رکھاہے پھردہشت گردی کیا کم تھی کہ اغواء برائے تاوان کے واقعات نے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلار کھا ہے ایک آزاد ملک کے باسی اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھروںمیں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں ملک گروہی،لسانی،فرقہ واریت اوربرادری میں تقسیم اورطبقات میں بٹاہواہے۔ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں سے یوںتو کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن ان حالات نے کاروباری طبقہ کو خاص طورپر متاثرکیاہے جس کی وجہ سے بے چینی،مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے

جب اس ملک میں باوسائل لوگ ہی محفوظ نہیں تو پھر عام آدمی کے تحفظ کیا ضمانت دی جا سکتی ہے امن و امان کے تحفظ اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی جیسے گھنائونے کام کی روک تھام کیلئے حکومت کیلئے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے موجودہ حالات اورجرائم پیشہ افرادکے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکمت ِ عملی تیارکی جائے سماج دشمن عناصر کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ناگزیرہے یہ لوگ سیاست، مذہب، کاروباراور معاشرے کے ہر طبقہ میں موجودہیںسچائی یہ ہے کہ ان وارداتوں میں جو بھی ملوث ہو اس پر کسی قسم کا رحم کھانا معاشرے کے قتل کے مترادف ہے ۔۔۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے

بے رحم اپریشن کے بغیر کبھی نتائج مثبت نہیں آسکتے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں ہوں چوری یا ڈکیتی کا بڑھتاہوا رحجان۔۔۔یہ معاشرے میں خوف کی علامت ہے اس سے کاروبار،معیشت، معاشرت سب شدید متاثر ہو سکتے ہیں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں سے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلارکھاہے ایک آزاد ملک کے باسی اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھروںمیں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں اس فتنے کا جتنی جلدی ہو سر کچل دینا ہی سب کے وسیع تو مفاد میں ہے۔

اس پھیلتے ہوئے ناسورکا سدِ باب بہترین حکمت ِ عملی اور منصوبہ بندی سے مستقل بنیادوں پر کیا جانا انتہائی ناگزیر ہے۔ایسے واقعات حکومتی دعوئوں پر سوالیہ نشان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعدم اعتماد بھی ہے اور ان کیلئے چیلنجز بھی۔ سابق وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے سمیت تمام مغویوں کی رہائی حکومت کا فرض ہے اس سے کوتاہی بہت مسائل پیدا کرسکتا ہے جس کا آج اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بچے کی طرح چیختارہتا ہے مسلسل
کیا خوف میرے شہرکو سونے نہیں دیتا

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی