دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو یکایک بین الاقوامی شہرت کی رفعتوں سے روشناس کرا دیا۔ نوبل انعام ملنے سے پہلے بھی اہلِ مغرب نے اُسے بیشمار انعامات سے نوازا جو یقیناََ ہر پاکستانی کے لیے باعثِ فخر تھا لیکن اِس کے ساتھ ہی ایک پاکستانی مسلمان بچی پر مغرب کی یہ نوازشات بھی ناقابلِ فہم تھیں۔یہ عقدہ تب وا ہوا جب ملالہ کی کتاب I am Malala منظرِ عام پر آئی۔اِس کتاب کے مطالعے کے بعد کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ مغرب نے سولہ سترہ سالہ معصوم ملالہ کی معصومیت کو کس طرح کیش کرانے کی کوشش کی ۔کتاب کی مصنفہ تو ملالہ یوسف زئی ہے لیکن در اصل یہ کرسٹینا لیمب کی خباثتوں کا شاہکار ہے جس میں ملالہ کے باپ ضیاء الدین یوسف زئی نے بھی اُس کا بھرپور ساتھ دیا۔
ضیاء الدین کی پُر اسرارشخصیت کے بارے میں سوات میں کئی کہانیاں زبان زدِعام ہیں ۔اُس کے گھر میں کئی غیرملکی آکر ٹھہرتے رہے جن میں میڈیا کے نمائندے بھی تھے اور غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ بھی۔اِس بحث میں پڑے بغیر کہ کیا دس سالہ ملالہ ہی گُُل مکئی کے قلمی نام سے ڈائری لکھ رہی تھی یا کوئی اور،یہ طے ہے کہ کل کی گُل مکئی اور آج کی ملالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اُس نے اپنی کتاب میں مذہب ،سیاست ،معاش اور معاشرت سبھی پر مغربی ایجنڈے کے عین مطابق لکھا ۔کتاب میں ناموسِ رسالت کے قانون ، حدود آرڈیننس اور پاکستانی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے خلاف جو کچھ بھی لکھا گیاوہی مغربی ایجنڈا بھی ہے اوریہ کہے بنا کوئی چارا نہیں کہ برطانیہ میں چادر اوڑھے نظر آنے والی ملالہ نے مغربی تصورات کی بھرپور نمائندگی کی۔
وہ خود تو چادر اوڑھتی ہے لیکن حیرت ہے کہ ضیاء الحق کے ہاکی ٹیم کی لڑکیوں پر ”شارٹس”پہننے کی پابندی پر سخت تنقید بھی کرتی ہے ۔اُسے ضیاء الحق مرحوم محض اِس لیے ناپسند ہیں کہ وہ ملکی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے ۔ روشن خیال پرویز مشرف کی اِس لیے تحسین کہ اُس نے ٹی وی پر ڈانس دکھانے ، ویلینٹائن ڈے اور نیوایئر منانے کی اجازت دی ۔شاید ملالہ نہیں جانتی کہ دینِ مبیں میں اِس قسم کی خرافات کی مطلق اجازت نہیں قُرآنِ کریم میں جابجا”حیا” کی تاکید کی گئی ہے اور آقا ۖکا بھی فرمان ہے ”حیا اور ایمان ،دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔
اِن میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے۔اور ایسا بھی نہیں کہ کسی کو قُرآنِ مجید کی سمجھ نہ آتی ہو کیونکہ حکمت کی کتاب میں درج ہے کہ ”ہم نے آسان کر دیا قُرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے۔پس ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟”(القمر)۔لیکن اگر کوئی نصیحت پکڑنا ہی نہ چاہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔اگر ہم اسلامی شعائرکے عین مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو پھر گر تُو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جُز بہ قُرآں زیستن
ملالہ کو اِس پر بھی اعتراض ہے کہ ضیاء الحق نے مرد کی ایک اور عورت کی دو گواہیوں کے قانون کو نافذ کیا۔ لیکن یہ ضیاء الحق کا نہیں ،اللہ کا قانون ہے جس کی شاید ملالہ کو خبر نہیں۔وہ یہ بھی کہتی ہے کہ قُرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ عورت مرد کی محتاج (Dependent)ہے ۔اُسے سورة النساء پڑھ لینی چاہیے جس میں واضح طور پر مرد کو عورت کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے اور ملالہ کا بطور مسلم یہ جزوِ ایماں ہونا چاہیے کہ قُرآن کے کسی ایک حرف کا انکار پورے قُرآن کے انکار کے مترادف ہے ۔یا پورا قُرآن اپنا لو یا سارے کا سارا چھوڑ دو۔مانا کہ اِس ”دورِ منور”کے تقاضے کچھ اور ہیں اور اب تو ہماری سیاست بھی ”میوزیکل کنسرٹ ” اور ناچ گانے کے بغیر ادھوری اور روکھی پھیکی نظر آتی ہے لیکن ہمیں ایسی ریاست قبول ہے نہ سیاست و جمہوریت جو دین سے دور کر دے۔ سچ کہا اقبال نے
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارہ
ملالہ کو یاد ہونا چاہیے کہ حضرت قائدِ اعظم نے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پریہ ملک حاصل کیا تھا اور 14 اگست 1947ء کو جب آخری وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائدِ اعظم سے کہا کہ پاکستان میں مغل بادشاہ اکبر کا نظام رائج کر دو تو قائدِ اعظم نے ایک لحظے کی تاخیر کے بغیر کہا ”نہیں، سلطنتِ مدینہ کا نظام”۔ آئینِ پاکستان میں بھی کسی ایسے قانون کی ہر گز گنجائش نہیں جو قُرآن و سنت کے مطابق نہ ہو۔اِس لیے آئین کے عین مطابق تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ہم پر واجب ہے ۔ناموسِ رسالت ۖ کا قانون ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور خون میں شامل ۔ ملالہ ملعون رشدی کے لیے اپنے دل میں جتنی بھی ہمدردی رکھے ، ہمارے نزدیک تووہ واجب القتل ہی ہے ۔یاد رہے کہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دیگر ادیانِ عالم میں بھی شاتمِ رسول کی یہی سزا مقرر کی گئی ہے۔
Pakistan
ملالہ کہتی ہے کہ ”اگر ہم نے ایٹم بم پر اتنا پیسہ صرف نہ کیا ہوتا تو پاکستان میں اُسی پیسے سے بہت سے سکول کھل سکتے تھے ”۔حصولِ علم کی افادیت سے انکارممکن ہی نہیں۔دینِ مبیں میں بھی حصولِ علم کی بار بار تلقین کی گئی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کسی ایک مقصد کے حصول کی خاطر دوسرے کو فراموش کر دیا جائے ۔ہمارا دین جہاں حصولِ علم پر زور دیتا ہے ،وہیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم بھی ہے ۔اگر ہم نے ایٹم بم نہ بنایا ہوتا تو آج اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو چکا ہوتا اوراگر 1971ء میں ہم ایٹمی قوت ہوتے تو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری غیرتوں کے تمغے نہ نوچے جاتے ۔پوری قوم جانتی ہے کہ بیرونی قوتوں کے دل میں ہماری ایٹمی صلاحیت محض اِس لیے کانٹے کی طرح چبھتی ہے کہ پاکستان وہ واحد اسلامی مملکت ہے
جو ایٹمی قوت بھی رکھتی ہے۔ ملالہ کو بھی اِس ایٹمی صلاحیت پر فخر ہونا چاہیے نہ کہ پریشانی ۔ افواجِ پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے ملالہ کہتی ہے کہ” کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ فوج اسامہ کی موجودگی سے لا علم تھی البتہ ہر کوئی یقین رکھتا ہے کہ آئی ایس آئی کو اسامہ کہ ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم تھا ”۔سبھی جانتے ہیں کہ سانحہ ایبٹ آباد کے بعد پاکستان مخالف بیرونی قوتیں مسلسل یہی الزام تراشی کرتی رہی ہیں کہ اسامہ بن لادن آئی ایس آئی کی پناہ میں تھا ،اب ملالہ یوسف زئی بھی انہی کی آواز میں آواز ملا رہی ہے اِس لیے یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ ملالہ اہلِ مغرب کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے اور اُس پر نوازشات کی بارش کی وجہ بھی یہی ہے۔ اِس کے باوجود بھی ہمارا حسنِ ظن یہی ہے کہ ملالہ معصوم ہے اور جب وہ شعور کی پختگی تک پہنچے گی تو اُسے اپنی اِس غلطی کا احساس ضرور ہو گا۔