بیشک دنیا گول ہے،اِس سے تو کسی کوبھی انکار نہیں ہے… امّایار پھر بھی میرے مُلک میں اکثرایسے بھی سر پھرے لوگ موجود ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ دنیا گول نہیں ہے ،آج میرے دیس میں جن لوگوں کا یہ کہناہے کہ دنیا گول نہیں ہے تو اِن لوگوں میں اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے ، جنہیں ابھی حقیقت اور سیاست کی الف ، ب کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے مگر بس وہ ہر حقیقت اور سیاسی فسانے سے مُبّراہوکر سیاست کے میدان میں اُترگئے ہیں، اور سیاست کے آتش کدے میں خود بھی گود گئے ہیں اور اپنے ساتھ قوم کو بھی لے کر گر رہے ہیں اور آئندہ زیادہ قوت سے گرنے کا عزم صمیم بھی کئے ہوئے ہیں ،آج ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے کہیں اچھے بھلے بھی باغی بن بن کر… داغی بن گئے ہیںاور اَب ایسالگتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہاتو شاید ہر کونے سے بہت سے سیاسی باغی پھر داغی بن کرنکلیں گے اور یوں سیاست جیسے مقدس شعبے کو غیرمقدس بنا دیاجائے گا ۔
بہرکیف..!! اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کرنے کانام ہی سیاست ہے،اور اِسی طرح دنیا کے ہر مذہب معاشرے میں سیاست کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ عوامی خدمت کے لئے خوب سوچ سمجھ کر منزل کا تعین کرنے اور پھر اپنی محنت اور جدوجہدِ مسلسل سے آگے بڑھنے کا نام بھی سیاست ہے ۔
یہاں مجھے یاد آرہاہے کہ ایک موقع پر ہمارے ملک کے درویش صفت دانش وربابااشفاق احمدنے کہاتھاکہ دنیا گول ہے، اورآج ہم دنیا میں اپنے اور دوسروںکے لئے جواچھایا بُرا کریں گے ، وہ ہمیں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر پلٹ کر مل جاتاہے، بابااشفاق احمدنے بالخصوص دھوکے بازوں کے لئے کہاتھا کہ دھوکہ کبھی بھی اپنے مالک کو دھوکہ نہیں دیتاہے، اور اِس سے بے وفائی نہیں کرتاہے، دھوکہ کبھی نہ کبھی اپنے مالک کے پاس ضرور پلٹ کرآتاہے، اور تب مالک کو ایسادھچکہ لگتاہے کہ وہ چکراکر رہ جاتاہے اور پھر اُسے اپنے کئے کی سزاملتی ہے ۔
آج میرے دھوکے بازمعاشرے میں چرب زبانی سے دھوکے بازی کو جوطبقہ سب سے زیادہ پروان چڑھارہاہے وہ مُلکی سیاست میں حکمرانوں ، سیاستدانوں، بیوروکریٹ اور اشرافیہ کاطبقہ ہے ، جس نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے خاطر ساری پاکستانی قوم کو دھوکے کی بھٹی میں جھونک دیاہے، اور میرے وطن کے پلے درجے کے چرب زبان اور دھوکے باز حکمرانوں اورسیاستدانوں نے ساری پاکستانی قوم پر اپنی دھوکے بازی اور چرب زبانی کا گھولتاہوالاوااُنڈیل کر پوری قوم کو بھسم کردیاہے۔
اَب ایسے میں خواہ بلاول زرداری کی بے مقصد اور بے سر پیر کی گھنٹوں گھنٹوں کی تقاریرہوں کہ آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست، اور نوازشریف کی کاروباری مفاداتی حکمرانی ہویا نوازشریف کی ہی مخصوص سوچ کی حامل سیاسی منصوبہ بندیاں… اورتواور قادری و عمران کا انقلاب اور تبدیلی و نیاپاکستان بنانے کے لئے دیاجانے والادھرناہو….. یااِن سب کی ایسی ویسی اور کیسی سیاسی ڈرامہ بازیاں اور دھوکے بازیاں ہی کیوں نہ ہوں….؟؟
Revolution
بس سب کے سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں قوم کو دھوکہ دے کر اقتدارکے مزے لوٹناچاہتے ہیں ۔آج جن لوگوں نے اسلام آبادکے ریڈزون میں دوماہ تک دھرنا جاری رکھا اور جب اِنہیں یہاں سے بظاہر کچھ نہ ملا … تواَب اِنہوں نے اپنے دھرنے کو سارے مُلک میں پھیلانے کا منصوبہ بنالیا ہے، اُنہوں نے ابھی تک تو عوام کو اسلام باد میں بیٹھاکر اپنی قابلیت جھاڑ ے رکھی اگرچہ اِس سے مُلک میں فوری انقلاب تو نہ آیامگریہ حقیقت ہے کہ عوام پریشان ہوئی سوئی مگر دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ اِس سے عوام میں اپناحق لینے اور جابرو فاسق اورفاجر حکمرانوں اور سیاستدانوں اور مُلک کے اشرافیہ کے وی وی آئی پیز کلچر کے سامنے ڈٹ جانے اور اپنے وجود کو پہچاننے اور دوسروں سے خود کو منوانے کا ڈھنگ ضرورآگیاہے۔
اکثرمیں سوچتاہوں کہ جس جمہوری اور آزاد معاشرے میں ، میں زندہ ہوںاور کئی بحرانوں میں جکڑے جانے کے بعد بھی سانس لے رہاہوں، کیا یہی جمہوری اور آزادمعاشرہ ہے…؟ جہاں نہ اپنا حق لینی کی آزادی ہے، نہ سچ بولنے، سُننے، لکھنے، اور پڑھنے کی آزادی ہے،اور اِسی طرح جہاں نہ رشوت دیئے اور لئے بغیرکچھ کام ہوتاہے ،کیا ایسی ہوتی ہے جمہوریت اور آزادی….؟کہ جس میں حکمران طبقہ جمہوریت کے سارے مزے لوٹے اور غریب طبقہ ہر آسائش اور مراعات کو ترستے ترستے قبرکی آغوش میں جاسوئے مگرپھربھی مُلکی حکمرانوں اور اشرافیہ کے کانوں تک جوں بھی نہ رینگے۔اگراِسی کا نام جمہوریت اور آزادی ہے … ؟جس میںقوم کا حق ماراجائے اور حکمران اور اشرافیہ طبقہ مل کرتو مزے لوٹیں اور غریب پس کررکھ دیاجائے۔تو قوم کو یہ دونوں ہی نہیں چاہئے ۔
آج قوم کو جاگنے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کا وقت ہے، اپنے ہاتھ حرکت میں لاکر اپنے حقوق غضب کرنے والوں کے گربیان پکڑکر اِنہیں سڑکوں پہ گھسیٹنے کا وقت ہے، آج قوم یاد رکھے یہ اگرابھی نہ جاگی اور خوابِ خرگوش میں پڑی سوتی رہی تو پھرگمنامی اور پستی دونوں مقدربن جائیں گے اور اِس کا پھر کوئی پرسانِ حال نہیںہوگا،آج جو لوگ دھرنے کی مخالفت میں اپنی زبانیں بے لگام کئے ہوئے ہیں اِنہیں سوچناچاہئے کہ حالات نے پلٹاکھایاتو آج جہاں دھرنی ہیں تو کل یہ بھی ہوں گے کیوں کہ دنیاگول ہے، اور جب کوئی کسی کے ساتھ بُراکرتاہے تو کل اُس کا کیا ہواخود اُس کے سامنے آجاتاہے۔
لہذاآج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ساری پاکستانی قوم اپنے بہتر مستقبل اور کل کو تابناک بنانے کے لئے متحدو منظم ہوجائے اور دنیاکی تہذیب یافتہ اقوام کی طرح اپنے اندرمثبت اور تعمیری سوچ پیداکرے اور اپنے قول وفعل میں تبدیلی لائے بدعقیدگی اور بہکاوے کی سیاست کو خیرباد کہہ دے اور اپنی مثبت سمت کا خود تعین کرے اوراَب اِسی کے ساتھ ہی آخرمیں، میں آپ کے سوچنے کے لئے شاعر کے اِس شعر کو پیش کرکے اجازت چاہوںگاکہ” بستی کے سارے ہی لوگ آتش پرست تھے گھر جلتا رہا سمندر بھی قریب تھا