پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے شاہراہ دستور پر دھرنا ختم کر کے دھرنے پورے ملک میں پھیلانے کااعلان کرتے ہوئے شرکاء کو گھروں کو جانے کی اجازت دے دی اور کہا ہے کہ ہر شہر میں دو دن کادھرنا ہوگااور اس کا آغاز 23 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے ہوگا، 23نومبر کو بھکر،5 دسمبر کو سرگودھا، 14 دسمبر کو سیالکوٹ اور 25 دسمبر کو کراچی میں جلسہ اور دھرنا ہوگا۔ یہ سلسلہ بعد ازاں بھی جاری رہے گا۔جناح ازم کو پھیلایا جائے گا اور ملک کے قریہ قریہ اور نگر نگر میں دھرنے ہوں گے۔
دو ماہ قبل چودہ اگست کو لاہور سے طاہر القادری انقلاب مارچ کی قیادت کرتے ہوئے نکلے ،پنجاب حکومت نے ماڈل ٹائون کو کینٹینر لگا کر بند کر رکھا تھا لیکن انہیں راستہ دیا گیا ۔انقلاب مارچ اسلام آباد پہنچا اور تیسرے دن طاہرالقادری نے اپنے مطالبات پیش کئے جن میں وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ اور سانحہ ماڈل تائون کی ایف آئی آر تھی،مطالبات منظور نہ ہونے پر انقلاب مارچ کے شرکاء ریڈ زون کی طرف گئے تو حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی،ریڈ زون میں پاکستانی قوم کے لئے مفت میں کوئی نہ کوئی شو دکھایا جاتا تھا۔
کبھی انقلابی قبریں کھودتے نظر آتے تو کبھی کفن پہنے ،کبھی سٹیج پر خواتین نظر آتیں تو کبھی علامہ صاحب انقلابیوں کو رلا رہے ہوتے۔حکومت نے بھی مذاکرات کئے لیکن طاہر القادری کی ہٹ دھرمی قائم رہی،سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر بھیدرج ہو گئی۔ایک لمحہ ایسا آیا کہ لگ رہا تھا کہ شاید حکومت اب جانے والی ہے لیکن پارلیمنٹ میں موجود حکومتی اتحادیوں نے وزیر اعظم کو مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا ۔وزیراعظم ڈٹ گئے۔دھرنے کے شرکاء نے وزیراعظم ہائوس جانے کی بھی کوشش کی جو ناکام رہی۔اس دوران طاہرالقادری کبھی کرکٹ کھیلتے نظر آئے تو کبھی راولپنڈی اسلام آباد کے لوگوں سے کھانے پینے کی اشیائ،بستر و سامان کی اپیلیں کرتے نظر آئے۔
دو ماہ کے بعد اپنے مطالبات جن پر طاہرالقادری نے ہٹ دھرمی اختیار کی ہوئی تھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیںہو،نہ ت ووزیر اعظم نے استعفیٰ دیا ،نہ حکومت گئی حالانکہ روزانہ دعوے کئے جاتے تھے کہ اب حکومت چند گھنٹوں کی مہما ن ہے لیکن ایسا نہ ہوا۔تحریک انصاف کا دھرنا بھی عوامی تحریک کے ساتھ تھا۔ایک ساتھ چلے ،ایک ساتھ رہے لیکن اختتام عوامی تحریک کا پہلے ہو گیا۔اس طرح اچانک دھرناختم کرنے پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی پریشان ہو گئے اور وہ کافی دیر تک ساتھیوں سے اس بات کی تصدیق چاہتے رہے کہ کیا واقعی ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے؟
تاہم انہیں ساتھیوں نے بتایا کہ واقعی طاہرالقادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان شیخ رشید اور دیگر ساتھیوں سے اضطراری کیفیت میں بار بار سوالات کرتے رہے کہ کیا طاہرالقادری نے دھرنا ختم کر دیا ہے؟ جب انہوں نے اس کی تصدیق کی تو وہ کنٹینر سے نکل کر چھت پر پہنچے اور کئی لمحے طاہرالقادری کے کنٹینر کی طرف لوگوں کو سامان باندھتا دیکھتے رہے۔طاہر القادری نے دھرنوں کے آغاز سے قبل لاہور ماڈل ٹائون میں کہا تھا کہ جو بھی انقلاب مارچ سے واپس آجائے اسے شہید کر دو،اب علامہ صاحب نے خود واپسی کا اعلان کیا ہے اور کارکنوں کو کہا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹ جائو،دھرنوں کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔حالانکہ کوئی ایک بھی مطالبہ منظور نہیں ہوا ۔صرف عوام کو پریشان کیا گیا ہے۔دو ماہ تک لوگ گھروں سے دور رہے۔
Revolution
جن لوگون کو لے کر جایا گیا تھا انکو معاوضے تک نہیں دیئے گئے۔شدید بارش میں بھی شرکاء نے طاہرالقادری کا انقلاب کے لئے ساتھ دیا لیکن انقلاب نہ آیا اور نہ ہی شاید آ سکے کیونکہ غریبوں کے بیٹوں کو تو علامہ صاحب نے شدید بارش میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جبکہ انکے اپنے بیٹے اس انقلانی مہم کا حصہ نہیں تھے۔لاہور میں جب گزشتہ روز طاہر القادری نے دھرنے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت نے ان سے ملاقات کی اور دھرناجاری رکھنے کی استدعاکی تھی جس پرڈاکٹرطاہرالقادری نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ مجھے اورمیرے ساتھیوں کویہاں دھرنادیتے ہوئے پورے پنڈال میں سے مسلم لیگ ق کے ورکرزدکھادیں جوآج بھی دھرنے میں موجودہوں آپ لوگ وقتی طورپرآتے جاتے رہے ہیں
،اتحاد کرکے میں آپ کے ساتھ چلا تھا مگر جتنی بھی تکالیف برداشت کیں وہ سب کی سب پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے برداشت کی ہیں ،یہاں تک کے ان میں سے تین جوان زندگی کی بازی بھی ہارگئے۔لاکھوں کے اخراجات لوگ اپنی جیبوں سے کررہے تھے اورجس طریقے سے مرہم رکھناچاہئے تھااس طریقے سے مسلم لیگ ق نے اپناکردارادانہیں کیا،لوگ کہنے کوتوکہہ دیتے ہیں کہ دھرناجاری رکھناچاہئے آخرکس بات پردھرناجاری رکھناچاہئے ،میں اپنے لوگوں پرزیادہ ظلم نہیں کرسکتا،لوگوں نے جس طرح سے قربانیاں دیں میں ان قربانیوں کوپھل لگاناچاہتاہوں ،میں تمام لوگوں کوان کے گھروں میں بھیج رہاہوں تاکہ یہ آنے والے متوقع بلدیاتی انتخابات کی تیاری کرسکیں۔
اس دوران چوہدری شجاعت حسین نے ضدکی کہ آپ باقی لوگوں سے بات کرلیں عمران خان سے بھی مشاورت کرلیں اس پرڈاکٹرطاہرالقادری کاکہناتھاکہ کیاعمران خان نے جلسے کرنے کیلئے دھرنے کے دوران مجھ سے مشاورت کی تھی ،جب انہوں نے مشاورت نہیں کی تومیں اپنے لوگوں کواورکتنے امتحان میں ڈال سکتاہوں۔ ڈاکٹرطاہرالقادری نے چوہدری شجاعت سے کہاکہ آپ زیادہ نہیں صرف ایک ہزارکارکنان ہی مجھے دھرنے میں دے دیں تاکہ میں اپنے ایک ہزاربندوں کوکچھ دنوں کاآرام دے سکوں ،اس کاکوئی جواب چوہدری شجاعت نہ دے سکے۔ڈاکٹرطاہرالقادری نے چوہدری شجاعت پرواضح کیاکہ دھرناختم کرنے کافیصلہ میراہی نہیں یہ آپ سب نے کیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ وحدت المسلمین محرم الحرام کی وجہ سے کسی طورپربھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکے گی ان کے بہت سے ساتھی یہاں دھرنے میں بیٹھے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ محرم الحرام ایک ایسامہینہ ہے جس کااحترام ہم سب پرلازم ہے، میں ایک مذہبی سکالربھی ہوں لوگ میری باتوں کومیرے عمل کومثال کے طور پر لیتے ہیں ،میں نہیں چاہتاکہ محرم الحرام جیسے مقدس مہینے میں کسی قسم کاکوئی ناخوشگوارواقع پیش آئے۔ طاہرالقادری نے واضح طور پر کہا کہ لاہور سے صرف اکیلا چلا تھااوریہاں بیٹھابھی اکیلاہوں اب جانے کا فیصلہ کر رہا ہوں وہ بھی اکیلا ہونے کی وجہ سے کر رہا ہوں میرے لوگ مقدمات میں پھنسے ہیں ،کتنے زخمی ہوکرہسپتالوں میں پڑے ہیں میں کس حدتک انہیں زبردستی یہاں بٹھاوں۔
عمران خان سے مشاورت پرایک بار پھرچوہدری شجاعت حسین نے اصرار کیا تو اس پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے انہیں تجویزدی کہ وہ خودعمران خان کے کنٹینر پر چلے جائیں اوران سے مشاورت کرکے انہیں اس حوالے سے بتائیں ،جس پرچوہدری شجاعت حسین نے کہاکہ آپ کادھرناختم کرنے کاپروگرام ٹھیک ہے اب ہم مل کرپورے ملک میں جلسے کریں گے اوریوں تلخیوں سے شروع ہونے والی ملاقات باالآخر خوشی اوررضامندی سے ختم ہوئی۔عوامی تحریک کے دھرنے کے اختتام پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ عوامی تحریک کے دھرنے کے خاتمے پر کارکنوں کی خوشی فطری ہے، اچھی بات ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں جہاں تک طاہر القادری کا تعلق ہے، ان کیلئے شعر ہے کہ ”یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو، تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ”