مظفرآباد(خصوصی رپورٹ) جامعہ کشمیر کے زیر اہتمام بدلتی آب و ہوا کا حیاتی تنوع پر اثرات کے حوالے سے منعقدہ انٹر نیشنل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ ،منصوبہ بندی و ترقیات طوہدری لطیف اکبر نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر سے درخت ختم ہو گے تو پاکستان میں سیلاب اور قحط کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے، پاکستان میںتوانائی کے بحران پر قابوپانے کے لیے لوگ کالا باغ ڈیم نہیں بنانے دی رہے،مگر کشمیر ی عوام اپنی جان و مال اور قبروں کی قربانیاں دے کر پاکستان کو خوشحال بنا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں نیلم و جہلم پاور پراجیکٹ کے ٹنل کی تعمیر کی وجہ سے توانائی کے ذخائر میں اضافہ ہو گا وہاں ہمارے دیہی علاقوں میں زیر زمین پانی تقریبا ختم ہو رہا ہے۔ ٹنل کی تعمیر سے ہمارے چشمے خشک ہو رہے ہیں
اس سے نباتات کو بھی خطرہ لا حق ہو گیا ہے، ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے آزاد کشمیر میں ہر نئے پراجیکٹ کو تعمیراتی کام سے قبل ادارہ تحفظ ماحولیات (EPA)سے منظوری لینا لازمی قرار دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے حکام اس فورم پر ماحول کو درپیش خطرات اور اس کے بچائو کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق سے استفادہ کریں، تاکہ پالیسیاں بناتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی کو ملحوظ خاطر رکھا جا سکے، وزیر خزانہ چوہدری لطیف اکبر نے مزید کہا کہ دارالحکومت مظفرآبادمیں جلد صفائی مہم کا آغاز کر رہے ہیں جس میں پہلے مرحلے میں عوام کو آگاہی اور یورپ کی طرز پر مخصوص بیگ مہیا کیے جائیں گے
جس میں کوڑا کرکٹ بھر کر اس کو بلدیہ کے سینٹری ورکرز کے حوالے کیا جا سکے، ہم یو رپ کے معیار زندگی کو تو چاہتے ہیں مگر یورپ کے لوگوں کی طرح رضاکارانہ طور پر کام نہیں کرنا چاہتے، وزیر خزانہ چوہدری لطیف اکبر نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، سیلاب سے متاثرہ وادی میں کشمیر ی عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر اور قیمتی املاک تباہ ہو چکی ہیں،تباہ کن سیلاب میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں ، مگر بھارتی حکومت نہ تو خود کشمیر ی عوام کی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے بلا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی قابض افواج کی جارحیت کے باوجود کشمیری عوام کی جذبہ حریت کو دبایا نہیں جا سکتا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر جامعہ کشمیر پروفیسر ڈاکٹر سید دلنواز احمد گردیزی نے کہا کہ جامعہ کشمیر میں ادارہ برائے حیاتی تنوع و بدلتی آب و ہوا کا قیام اپنے آخری مراحل میں ہے اور جلد اس ادارے کا افتتاح وادی جہلم (گڑھی دوپٹہ) کے مقام پر ہو گا۔ ہمالیہ قدرتی وسائل سے بھر پور علاقہ ہے جس میں دریا، ندی نالے، آبشاریں پاکستان کی طرف بہتے ہیں، ہمالیہ میں ہونے والی ہر مثبت و منفی سرگرمی سے پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں آنے والے سیلاب اس کا ثبوت ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر گلیشئر پر پڑ رہا ہے
جو درجہ حرارت کے اضافے کے باعث تیزی سے پگل رہے ہیں جس سے چرند پرند اور نباتات اور قدرتی وسائل بہت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، جس کے بچائو اور آگاہی کے لیے ہی ہم سینٹر کا قیام عمل میں لا رہے ہیں جس کے لیے حکومت کو مالی معاونت کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ جامعہ کشمیر اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے جس سے ہماری کارکردگی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کے باقی صوبوں میں حکومتیں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ یو نیورسٹیوں کے لیے مختص کرتی ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں ایسا نہیں ہوتا، آزاد حکومت کو اپنے بجٹ میں جامعہ کشمیر کے لیے ایک حصہ مختص کرنا چاہے۔ کانفرنس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محققین کی موجودگی نے کانفرنس کو چار چاند لگا دیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے تحقیقی مقالہ جات مستقبل میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں عالمی سطح پر بنائی جانے والی پالیسیوں میں مدد گار ثابت ہوں گئے۔
کانفرنس کے انعقاد سے حاصل ہونے والے مقاصد باعث اطمینان ہیں، ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے آگاہی میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اس ضمن میں جو ادارہ ہمارے ساتھ کام کرنا چاہے تو اہم اس خوش آمدید کہیں گئے،انہوں نے کہا کہ جامعہ کشمیر کے کنگ عبد اللہ کیمپس کا کام سست روی کا شکار ہے، جامعہ کشمیر اس تدریسی و تحقیقی امور کے لیے انفراسٹریکچر کی کمی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے، جس پر حکومت کو سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈائر یکٹر ٹیکنیکل اینڈ اکیڈمک پلاننگ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر شفقت محمود نے کہا کہ قدرتی وسائل سے مالا مال زمین پر اس کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے، کانفرنس کے شرکاء نے یہ جان کر نہایت مسرت کا اظہار کیا کہ جامعہ کشمیر ادارہ برائے حیاتی تنوع و بدلتی آب و ہوا کا قیام وادی جہلم کے مقام گڑھی دوپٹہ میں قائم کر رہا ہے
جو نہ صرف جامعہ کشمیر میں مثبت اضافہ ہو گا بلکہ یہ ادارہ پاکستان میں بھی پالیسی ساز اداروں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ کانفرنس کے فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر سید عبد الماجد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد ایک چیلنج سے کم نہیں تھا جس سے اللہ رب العالمین کے فضل و کرم سے بخوبی سر انجام دیا، بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین کی آمد کانفرنس کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے، 2005 کے زلزلے نے ہمالیہ ریجن کو بری متاثر کیاماحولیاتی آلودگی دنیا میں ایک بڑا چلینج بن کر سامنے آ رہی ہے جس سے نمٹنے کے لیے نہ صرف حکومتی و نجی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اس کانفرنس کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کے مسلے کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے سیکرٹری ڈاکٹر انصر یاسین نے کہا کہ بدلتی آب و ہوا کا حیاتی تنوع پر اثرات کے حوالے سے منعقدہ انٹر نیشنل کانفرنس کے انعقاد سے ماحول کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملے گی،کانفرنس کے شرکاء کوآخر میں شیلڈز دی گئیں۔