24 اکتوبر، اقوام متحدہ کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی طور پر لکھا گیا اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلانئے میں 24اکتوبر کا دن اس ادارے کے ”عالمی دن” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاریخ انسانی کے اس ایک بڑے ادارے کے قیام کے لئے 1945 میں 25 اپریل سے 26 جون تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ مقصد پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی کو روکنا بتایا گیا تھا۔
یوںاسی بنیاد پر اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا جسے عالمی سطح پر 24 اکتوبر 1945 کو لاگو کیا گیا اور پھر یہی دن اس ادارے کے قیام کا دن قرار پایا۔اقوام متحدہ کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔اقوام متحدہ کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ”ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے جو ہماری زندگی میں بنی نوع انسان پر دو مرتبہ بے انتہا مصیبتیں لا چکی ہے۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے۔ مرد اور عورت اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔
ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔وغیرہ ،وغیرہ” آج اس ادارے کے قیام کو 69 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن جب ہم اس ادارے کی کارکردگی کو اس کے چارٹر کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ یہ ادارہ اس وقت دنیامیں مسلمان ملکوں کو توڑنے ،مسلمان ملکوں پر عالمی طاقتوں سے قانونی حملے کروا کر انہیں غلام بنانے یا دنیا بھر میں مسلمانوں کی محکومیوں اور مظلومیت کو بڑھانے اور ان کے خلاف قانونی ظلم و جبر کو پروان چڑھانے میں مصروف ہے۔
اس وقت بھی پاکستانی سرحد اور کنٹرول لائن پربھارتی گولہ باری جاری ہے۔ حالیہ گولہ باری کا آغاز اس وقت ہوا جب امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر باراک اوبامہ سے دو بار ملاقات کی۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف بھی پہنچے تھے جہاں اپنے خطاب میں نوازشریف نے اقوام متحدہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار اداکرے اور اپنا وہ وعدہ پورا کرے جو اس نے 1948ء سے کشمیریوں کے ساتھ کر رکھا ہے۔ نوازشریف نے یہی بیان گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ارکان سینیٹر ٹم کین ارو اینگس کنگ سے ملاقات کے دوران میں بھی دیا۔ یہاں ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر پر اپنی قراردادوں کا احترام کرنا چاہئے۔
مسئلہ کشمیر کا وہی حل قابل قبول ہو گا جسے پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کی تائید حاصل ہو۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کو سرے سے کوئی فریق ہی نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدہ میں طے ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان و بھارت کے مابین سرحدی تنازع ہے جسے وہ باہم گفت و شنید سے حل کریں گے۔ شملہ معاہدہ اپنی جگہ لیکن یہاں یہ تو کہیں بھی طے نہیںہوا تھا کہ اس مسئلہ میں اب اقوام متحدہ کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں ہو گا یاکشمیری اب اس کا فریق ہی نہیں ہوں گے۔ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ذریعے سے رابطہ کیا توسیکرٹری جنرل بان کی مون نے صاف جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان و بھارت باہم مل کر حل کریں۔ اقوام متحدہ کو اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں۔
Pakistan
پاکستان اس اہم مسئلہ کو یونہی ٹالنے یاجارحیت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے گفتگو و شنید سے کام لے۔ اس بیان پر بھارتی میڈیا نے خوب بغلیں بجائیں اور لکھا گیا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی جانب سے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بان کی مون کی جانب سے پاکستان کو یوں جواب دیا جانا اور ہمارے مسائل کے حل سے 67سال سے آنکھیں چرانا ثابت کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کیا ہمیں یاد نہیں کہ اسی اقوام متحدہ نے 1999ء میں انڈونیشیا کے علاقہ مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کروا کر اسے انڈونیشیاسے الگ کروا دیا تھا۔
حیران کن امر دیکھئے کہ اقوام متحدہ نے انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کی علیحدگی کو آزادی کی بحالی قرار دیا اور کہا کہ انڈونیشیا نے 1975ء میں اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جسے ریفرنڈم کے بعد 2002 میں باقاعدہ طور پر دوبارہ ”بحال ”کیا گیا تھا لیکن کمال دیکھئے کہ بھارت نے بھی کشمیر پر قبضہ جمایا، جوناگڑھ اور مناوادر پر بھی یلغار اور قبضہ کیا لیکن اسے کبھی بھی ناجائز نہیں کہا گیا اور نہ آج تک کبھی بھارت پر اس حوالے سے کوئی دبائو ہی ڈالا گیا۔ اقوام متحدہ نے افغانستان و عراق پر تو حملے کروا کر لاکھوں مسلمانوں کا قانونی قتل کرایا لیکن ہزار بار تسلیم کرنے اور قرار دادیں پاس کرنے کے باوجود کہ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ قائم کر رکھا ہے کسی قرار داد پر معمولی عمل بھی نہیں ہوا کیونکہ دوسری طرف مسلمان تھے۔ حال ہی میں غزہ میں اسرائیل کی بے پناہ دہشت گردی میں بھی اقوام متحدہ کا کردار کھل کر سامنے آ چکا ہے۔
یہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ فلپائن، تھائی لینڈ، برما سے لے کر چیچنیا، مالی اور سنٹرل افریقہ تک ہو رہا ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے ۔ فلپائن میں مسلمانوں کی تحریک آزادی تاریخ انسانی کی سب سے بڑی تحریک بن چکی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے گزشتہ 67سال سے بھارت کے خلاف آزادی پانے کے لئے مسلسل قربانیاں پیش کی ہیں۔ آج بھی ان کی گردن پر 10 لاکھ بھارتی مسلح فورسز سوار ہیں۔ روزانہ کشمیریوں کا قتل عام ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ اس لئے خاموش ہے کہ کشمیری مسلمان ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان بناتی ہے اور کمال دیکھئے کہ سوڈان کو توڑ کر بھی سوڈان کی جان نہیں چھوڑی گئی اور ابیے کا ایک علاقہ جہاں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں اور جو ہر لحاظ سے سوڈان کا ہی حصہ بنتا ہے، پر جھگڑا ختم نہیں ہوا اور ملک کا اتنا بڑا حصہ گنوا کر بھی اب بھی سوڈان کی گردن بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔
یہی نہیں سوڈان کی گردن دارفور اور دیگر علاقوں میں بھی پھنسی ہوئی ہے کیونکہ وہ ملک مسلمان ہے، سو اس کی جان بخشی نہیں ہو سکتی۔ سال رواں میں ہی وسطی افریقہ میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھا کر لاکھوں کو ملک بدر کر دیا گیا لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کبھی بنی ہی نہیں ہے اور نہ ہمیں اس سے کسی قسم کی امیدیں ہی وابستہ کرنی چاہئیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اقوام متحدہ سے الگ سے متحدہ محاذ قائم کرے۔ اس کی بنیاد ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں رکھی تھی اور اقوام متحدہ کی دہری اور منافقانہ پالیسی کو خوب بے نقاب کیا تھا۔
ہمیں اب یہ بات کسی طور پر اپنے ذہن کے کسی کونے میں نہیں رکھنی چاہئے کہ اقوام متحدہ کبھی مسلمانوں کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کو ایک ملالہ اور اس کے” بے بہا و لاتعداد و بے پایاں کارنامے” تو دکھائی دیتے ہیں لیکن دنیا بھر میں تڑپ تڑپ کر اسرائیلی، امریکی اور بھارتی بموں سے اپنے تعلیمی اداروں میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے مسلم بچے دکھائی نہیں دیتے۔ ملالہ انہیں اس لئے بھی پسند ہے کہ وہ قادیانیوں اور توہین رسالت کے مرتکبین سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی ساتھی ہے۔ اس سب نے اقوام متحدہ کو خوب بے نقاب تو کیا ہے لیکن جو مظلوم ہیں وہ آنکھیں کب کھولیں گے؟