تحریر: محمد شاداب رضا نقشبندی سیدنا حضرت فاروق اعظم بے شمار خصائل و فضائل کا مجموعہ تھے۔ معاشرتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے ایک مکمل قائد اور راہنما تھے ان کی قائدا نہ صلاحیتیں حکمرانوں کے لئے عظیم نمونہ ہیں۔ انداز حکمرانی اگر سیکھنے ہوں تو سیرت و کردار فاروقی کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے آج کے دور میں حکمرانوں کو جو سخت اضطراب و افتراق اور انتشار کے دو ر میں زمام حکومت سنبھالے ہوئے ہیں اگر چاہتے ہیں کہ کچھ دیر چین سے حکو مت کر لیں تو انہیں حضرت سید نا فاروق اعظم کے آئین جہا نداری کو مشعل راہ بنانا ہو گا۔ حضرت سید نا فاروق اعظم کی سیرت و شخصیت کی لفظی تصویر مشہورمحدث حافظ ابو ونعیم اصفہانی نے حلےة الاولیاء میں یوں بیان فرمائی ”قوم کے دوسرے فرد عمر فاروق ہیں جو شاندار غیر فانی مرتبے کے مالک ہیں اللہ نے ان کے ذریعے نبی صادق و مصدوق کی دعوت کا اعلان فرمایا، انہی کے طفیل فیصلہ کن اور بے کار باتوں کے درمیان امتیاز پیدا کیا۔ ان کی قوت و دبد بے کے سبب اللہ تعالیٰ نے آیات بنیات کی تائید فرمائی اور ان کی شخصیت اور سیرت کے لیے عطا کر دہ فضائل اور دلائل توحید کی راہ ہموار کی، ان کے ذریعے ہی قبال مزمت گروہ کو اللہ تعالیٰ نے منتشر فرمایا۔
یہ دعوت حق غالب آئی اورکلمہ حق کوثبات عطا ہوا نام و نسب :آپ کا اسم مبارک عمر اور کنیت ابو حفص تھی لیکن دربار مصطفےٰ سے آپکو ”الفاروق” کا لقب عطا ہوا۔ آپ کو ابو حفص کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی صاحبزادی سید ہ حفصہ جو رسول اکرم ۖ کے نکاح میں آئیں۔ان کے نام کی نسبت سے آپکو ابو حضص کہا گیا آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ نبو عدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابو جہل عمر و بن ہشام کا قبیلہ بنو مخزوم آپ کا ننہال ہے ابو جہل رشتے میں آپکا ماموں تھا۔ کیو نکہ سید نا فاروق اعظم کی والد ہ محترمہ حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ ا بو جہل کے سگے چچا کی بیٹی تھیں ۔ حضرت سید نا فاروق اعظم کی ولادت ١٣ عام الفیل ہے آپ خود فرمایا کر تے تھے کہ میری پیدا ئش حرب الفجار کے چار سال بعد ہوئی تھی۔ آپ زمانہ جاہلیت میں بھی اشراف قریش میں شمار ہوتے تھے ، قریش کی سفارت کا منسب جن لوگوں کے حصے میں آتا رہا ان میں فاروق اعظم شامل ہیں ۔ اس زمانے کی سفارت در حقیقت متحارب قبائل میں مصالحت کرانے سے عبارت تھی ۔آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ سے جا ملتاہے۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے۔ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح، بن عدی بن کعب العدوی القرشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبول اسلام حضرت سید نا فاروق اعظم ٦نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئے اس وقت آپ کی عمر شریف٢٧ سال تھی آپ کے قبول اسلام کا واقعہ تاریخ انسانی کے ان ڈرمائی واقعات میں سے ہے جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ نبی کریم ۖ نے دعا فرمائی تھی” اے اللہ! عمر بن الخطاب یا عمر وبن ہشام(ابو جہل) میں سے جسے تو پسند فرماتا ہے اس سے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما۔ دعا کی قبولیت کی وجہ سے یہ سعادت خطاب کے بیٹے عمر کے حصہ میں آئی جو فاروق بن کر حق و باطل کے درمیان حد فاضل قائم کرنے والے اور مثالی عادلانہ حکومت قائم کر کے تاریخ میں فاروق اعظم کی حیثیت سے جگہ پانے والے تھے ۔ میرا ایما ن ہے کہ نبی کریم ۖ اگر۔۔ او۔۔ نہ کہتے بلکہ۔۔ و۔۔ کہہ دیتے تو دونوں مسلماں ہو جاتے کیونکہ نبی کے منہ سے دعا نکلے اور پوری نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن عمر تو حضور ۖکا انتخاب ہیں اور آپۖ نے فاروق اعظم کو خدا سے مانگ کر لیا تھا۔ امام حاکم نے مستدرک میں دوسری روایت سے حضور کی دعا بیان فرمائی ”یا اللہ! صرف عمر بن خطاب کو مسلمان کر کے دین کو عزت عطا فرما” فاروق اعظم کا حلقہ بگوش اسلام ہوتا سید نا موسیٰ کلیم اللہ کے منصب نبوت کا شرف پانے سے ایک گونہ مشابہت رکھتا ہے۔ ایک آگ لینے کے لیے کوہ طور پر چڑھے اور نور نبوت سے نوا زے گئے دوسرے شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر بز عم خویش چراغ نبوت کو کل کرنے کے لیے گھر سے نکلے مگر حق کے داعی بن کر نور نبوت کے جا نثار اورحق و با طل کے درمیان فیصلہ کن قوت بن کر لوٹے۔ قبول اسلام کا واقعہ تاریخ میں اس طرح ضبط تحریر میں آیا ہے ۔ کہ آپ گھر سے تلو ار لیکر داعی حق کا قصہ پاک کر نے نکلے تھے ۔ مگر دار ارقم تک پہنچے سے پہلے ہی قدرت ان کے لیے کچھ اور راہ متعین کر چکی تھی۔ حضرت عمر خو د بیان فرمایا کر تے تھے کہ قبول اسلام سے چند دن پہلے میں بز عم خویش پیغمبر اسلام کا قصہ پاک کر نے کا ارادہ کر چکا تھا اور حملہ آور ہونے کی ایک کوشش پہلے بھی کر چکا تھا آپۖ مسجد حرام میں عبادت میں مشغول تھے، میں جوں ہی پہنچا آپ نے سورة الحاقہ کی تلا وت شروع کی ، میں قرآن کے معجزانہ اسلوب پر حیرت و تعجب کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔
میں نے دل میں کہا قریش سچ ہی کہتے تھے آپ شاعروں کا سا اسلوب بیان رکھتے ہیں مگر جب آپ نے یہ آیت پڑھی ”بے شک یہ قرآن ایک کرم والے رسول سے باتیں ہیں اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو” تب میرے دل میں خیال آیا کہ قریش آپ کو کاہن بھی تو کہتے ہیں ۔ لیکن اگلی آیت میں اس بات کی بھی نفی تھی ”اور نہ کسی کا ہن کی بات کتنا کم دھا ن کر تے ہو” پھر آپ نے اگلی آیات تلاوت فرمائیں ‘ اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے ضرور ہم ان سے بقوت بد لہ لیتے ” ان آیات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ میں متاثر ہو چکا تھا مگر کو ئی فیصلہ نہیں کر پا یا تھا۔ اسی الجھن میں واپس لوٹ آیا اس کے بعد ایک دن پھر تلو ار لے کر پکے ارادے سے گھر سے نکلا لیکن راستے میں نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہو گئی جو بنوذہر ہ سے تعلق رکھتے تھے اور اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضرت عمر نے فخر سے اپنے عزم کا اظہار کیا تو نعیم بن عبداللہ نے کہا تم ایسا کر کے بنو ہاشم اور بنو ذہرہ سے کس طرح بچ سکو گے ؟ حضرت عمر سمجھ گئے کہ یہ بھی اسلام قبول کر چکے ہیں کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اپنے آبا ء کے مذہب سے منحرف ہو چکے ہو۔ نعیم بن عبداللہ نے کہا اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ تمہاری اپنی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن ذیر بھی تمہارے آبائی مذہب کو ترک کر چکے ہیں۔ فاروق اعظم غیظ و غضب کی حالت میں اپنی بہن کے گھر گئے وہ قرآن کی تلا وت کر رہے تھے لیکن عمر کو دیکھ کر سب خاموش ہو گئے۔ آپ نے پوچھا تم کیا باتیں کر رہے تھے؟ میاں بیوی نے جواب دیا ہم تو اپنے مطلب کی باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت عمر نے کہا معلوم ہو تا ہے کہ تم اپنے آبائی دین سے پھر گئے ہو تو بہنوئی کہنے لگے ” اے عمر! اگر سچائی تمہارے مذہب کی بجائے کسی اور جگہ ہو تو َ؟ ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی آپ نے اپنے بہنوئی کو دبو چا اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن شوہر کو بچا نے کے لئے آگے بڑھی تو آپ نے بہن کو بھی مارا، اس کا چہرہ لہو لہان کر دیا تو وہ ناراضگی سے بولیں ”عمر ! تم کیا سمجھتے ہو اگر ہمارا آبائی مذہب حق پر نہ ہو تب بھی اسی پر اڑے رہو گے ؟” پھر بے ساختہ ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہو گیا ۔ بہن اور بہنوئی کی ثابت قدمی نے عمر بن خطاب کے عزم کو مایوسی میں تبدیل کر دیا ۔ بہن سے آیات قرآنی مانگیں تو اس نے کہا ” نہیں تم ناپاک ہو ، کلام اللہ کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ” تب حضرت عمر نے وضو کیا اور سورة طحہٰ کی ابتدائی آیات پڑھنے لگے جب اس آیت پر پہنچے ” بے شک میں ہی اللہ ہو ں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، اس لیے تم میری ہی عبادت کرو اور میر ی ہی یاد کیلئے نماز قائم کرو”۔۔۔۔۔۔تو کہا مجھے نبی کریمۖ کے پاس لے چلو۔ کلیم طور کے منصب نبوت سے سرفراز ہونے کے اس تزکرئہ ربانی سے فاروق اعظم کا دل پلٹ گیا ۔ وہ اگ لینے گئے تو نبوت سے نواز ے گئے یہ نبوت کو مٹانے گئے تو حق و باطل کے درمیان حد فاضل بن گئے ۔یہ سن کر حضرت خباب جوچھپے ہوئے تھے ۔ سامنے آئے اور کہا ” عمر! تمہیں خوشخبری ہو ، جمعرات کی شام رسول اللہ ۖ کی مانگی ہو ئی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی ہے ” تاریخ اسلام کے اس فیصلہ کن موڑ پر اہل اسلام رسول اللہ ۖ کے ساتھ دار ارقم میں جمع تھے ۔جب عمر وہا ں پہنچے تو حضرت امیر حمزہ نے صحابہ کو ایک طرف ہونے کا اشارہ کیا اور کہا اگر یہ اچھی نیت سے آئے تو ٹھیک ورنہ اسکی تلوار سے میری تلوار زیادہ کارگر اور کا میاب ہے ۔ رسول اللہ ۖ نے حضرت عمر کو گر بیان سے پکڑ کرجھنجھوڑا تو وہ آپ ۖ کے قدموں میں گر کر روئے اور کلمہ شہادت زبان پر جاری ہو گیا ۔ یہاں پر یہ بات خصوصاََ قابل ذکر ہے ۔ کہ حضرت عمر کے قبول اسلام کا فوری سبب کتاب اللہ کی اثر انگیزی ہے حضرت عمر کا ایمان کتاب اللہ کے اعجاز اور پیغام حق ہونے کی اولین شہادتوں میں سے ایک ہے۔
الفاروق:حضرت عمر فاروق سے پہلے انتالیس مرد اور گیارہ خواتین اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ان سب میں سے عمر بن خطاب کے قبول اسلام کا واقعہ نہایت اہم اور نمایاں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک اسلامی کی تاریخ اور سیر ت مصطفےٰ کے اتنہائی اہم واقعات میں سے ایک ہے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا ۔ حافظ عبدالبر نے الا ستیعاب میں لکھا ہے ۔ ان کا حلقہ بگوش اسلام ہونا حق کیلئے تمہید ثابت ہوا اور اسلام کوغلبہ نصیب ہوا ۔۔۔ قبول اسلام کے بعد فاروق اعظم نے سوال کیا ۔ یا رسول اللہۖ ، ہم زندہ رہیں یا مر جائیں ، دونوں صورتوں میں حق پر ہم ہی نہیں ہیں ؟” نبی اکرم ۖ نے فرمایا ”ہاں! مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے اب تمہیں موت آئے یا تم زندہ رہو،حق پر تم ہی ہو ” حضرت عمر نے عرض کیا ” تو پھر یہ پو شیدہ پیغام حق کی تبلیغ کیو ں ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپکو رسول بر حق بنا کر مبعوث فرمایا اب حق کھل کر سامنے آئے گا اور باطل کو راہ فرار اختیار کر نا ہو گی ” چنانچہ مسلمان دو ٹولیوں میں دارارقم سے باہر آئے ایک کے ساتھ حضرت امیر حمزہ اور دوسری کے ساتھ حضرت عمر فاروق یہ دو چھوٹے سے قافلے بیت اللہ کی طرف چلے تو ان کے قدمو ں سے اٹھنے والا غبارا سلام اور کفر کے کھلے مقابلہ کا علان کر رہا تھا جب قریش نے امیر حمزہ اور فاروق اعظم کو دیکھا تو سکتہ میں مبتلا ہو گئے اسی مو قع پر رسول اللہۖ نے حضرت عمر بن الخطا ب کو ” الفاروق” ( حق و باطل کے درمیا ن فرق کرنے والا) کے لقب سے نوازا ۔ مناقب:۔ تزکرہ نگاروں کی تصویر لفظی کے مطابق آپ گندمی رنگ ، درا ز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے ، داڑھی بہت گھنی اور مہندی سے رنگی ہو تی تھی ۔ آنکھوں میں میں شدید سرخی اور رخسا ر ہلکے تھے ۔ طبیعت کے لحاظ سے بہت سخت گیر مشہور تھے ۔ رعب و دبد بہ کا یہ عالم تھا کہ لوگ آپ کو دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے تھے ۔ نبی کریم ۖنے فرمایا ” عمر کی ہیبت سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے ” حضورۖ نے یہ بھی فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر فاروق نبی ہوتے” آپ وہ جامع اور ہمہ گیر شخصیت ہیں کہ قرآن کی سولہ آیات آپ کی رائے کی تصدیق میں نازل ہوئیں ۔حضرت مجاہد کا قول ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں بیان فرمایا کہ جب عمر نے کوئی رائے دی تو خدانے اس رائے کی تصدیق میں قرآن نازل کر دیا ۔ مقام ابراہیم پر نوافل ، حرمت شراب، مسئلہ پر دہ اور بدر کے قیدیوں کے بارے میں جورائے حضرت عمر نے ظا ہر فرمائی وہ اللہ کی پسند اور منشاء کے مطابق ثابت ہوئی ۔ نبی کریم ۖنے فرمایا۔ اللہ نے عمر کے دل اور زبان پر حق کو حاکم بنایا ”شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ، فاروق اعظم کے فضائل و مناقب میں فرماتے ہیں ” فاروق اعظم کے سینے کو ایک گھر تصور کر و جس کے مختلف دروازے ہیں او ر ہر دروازے پر ایک با کمال شخصیت بیٹھی نظر آئے گی ” مصرکے معروف سیا ستدان ، صحافی اور مورخ محمد حسن ہیکل نے اپنی مشہور تصنیف ”الفاروق عمر ”میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے بارے رسول اللہۖ کا فرمان نقل کیا ہے جو ان دونوں ہستیوں کے کردار اور سیر ت کی تصویر پیش کرتا ہے ۔ جنگ بدر کے قید یوں کے متعلق حضرت ابو بکر صدیق نے فدیہ لیکر چھوڑ دینے اور فاروق اعظم نے انکی گردنیں اُڑا دینے کا مشورہ دیا تو رسول اللہۖ نے دونوں کی مثال یون بیان فرمائی کہ ملائکہ میں ابو بکر کی مثال حضرت میکائیل کی سی ہے جو اللہ کے بند وں کے لیے رحمت و بخشش کا پیغام لے کر آتے ہیں اور انبیاء میں ابو بکر کی مثال حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ کی سی ہے ۔ حضرت ابراہیم کی انکی قوم نے دہکتی آگ میں ڈالا لیکن آپ نے اُن سے صرف یہی کہا ”تم پر اور اللہ کے سوا جن کی تم پوجا کرتے ہو ، افسوس ہے توکیا تم میں عقل ہی نہیں ؟” اور اللہ کی بار گاہ میں یوں عرض کیا ، ”ان میں سے جو میری پیروی کر یگا وہ تو میرا ساتھی ہے ہی مگر جو میری نافرمانی کر یگا تو اسکے لیے آپ غفور رحیم ہے ” اسی طرح حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم کے بارے میں کہا ” اے اللہ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر توا نہیں بخش دے توغلیہ و علم تجھے ہی سزاوار ہے” اس کے مقابلے میں فاروق اعظم کی مثال ملائکہ میں جبرائیل کی سی ہے جو اللہ کے غیض و غضب اور شمنا ن حق کیلئے جذبہ انتقام بن کر نازل ہوتے ہیں اور انبیاء میں فاروق اعظم کی مثال حضرت نوح اور موسیٰ کی سی ہے ۔ حضرت نوح نے اپنے رب کی بار گاہ میں مفکر ین حق کے بارے یوں عرض کیا” اے پروردگار! ان کا فروں میں سے روئے زمین پر کوئی بھی مت چھور” اور حضرت موسیٰ نے نافرمانی لوگوں کے بارے عرض کیا ” اے پروردگار! ان کے مال و دولت کو نابود کر دے ، انکے دلو ں کو جکڑ دے کے کیونکہ جب تک یہ درد ناک عزاب نہیں دیکھیں گے ایمان نہیں لائیں گے ” نبی اکرمۖ نے یہ بھی فرمایا” اللہ کے معاملہ میں عمر میری تمام امت سے زیادہ سخت ہیں ” انداز حکمرانی :١٣ ہجری میں حضرت ا بو بکر صدیق کی وفات کے بعد خلافت کا منصب سنبھالا اور بہترین انداز میں نبھایا ۔ اللہ کے مال میں عام آدمی کے حق کے برا اپناحق ٹھہرایا ۔ انکے عہد خلافت میں مصر ، شام ، عراق اور ایران کی فتوحات مکمل ہوئیں ۔ آپ پہلے مسلمان حکمران ہیں جنہوں نے اہلیت اور خدمت کی بنیاد پر مسلمانوں کے نام رجسٹر میں درج کروائے اور انکے وظائف مقرر کئے۔
Allah
آپ اللہ کے دین کے معاملہ میں نہ تو کسی کا لحاظ کر تے تھے اور نہ ہی کسی سے ڈرتے تھے ۔ تاریخ انسانی میں جن حکمرانوں نے اپنے آرام اور ذاتی مفاد کورعایا کے آرام اور مفادات پر قربان کیا حضرت عمر فاروق ان میں سر فہر ست اور سر عنوان کا مقام رکھتے ہیں ۔ محاضرات تاریخ الدھم الد سلامیہ میں علامہ محمد الخضری کے قول کے مطابق ”حضرت فاروق اعظم ان حکمرانوں میں سے تھے جو عامة الناس کی خوشیوں کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں حتیٰ کہ وہ تو اپنے گورنروں پر بھی عام رعایا کی ہر بات کو ترجیح دیتے تھے ” تاریخ کے علا وہ کتب حدیث و سیرت میں بکثرت واقعات انکی رعایا پر وری کا منہ بولتا ثبو ت ہیں حضرت خفاف بن ایماء غفاری اپنے قبیلے کی مسجد کے امام تھے ۔ انکی بیٹی ایک مرتبہ راستے میں حضرت عمر سے ملی اور کہا امیر المومنین ! میرے شوہر فوت ہو چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے فاقوں کا شکا ر ہو کر بھوک سے نڈھال پڑے ہیں میں خفاف بن ایما ء کی بیٹی ہوں جو صلح حدبیہ میں رسول اللہ ۖ کے ساتھ تھے ۔ آپ یہ کہتے ہوئے رک گئے ” خوش آمدید ، سلسلہ نسب بہت عظمتوں والا ہے ” پھر لوٹ گئے اور ایک مضبوط اونٹ پر اشیا ء خور دونو ش لا د کر مہا ر اس عورت کو تھما تے ہوئے کہ لو یہ سب تمہارا ہے جب ختم ہو گا تو اللہ تہمارے لیے کوئی اور انتظام فرما دیں گے ۔ کسی ساتھی نے کہا ، امیر المومنین ! آپ نے اس عورت کو بہت زیادہ دے ڈالا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا ” تیرا برا ہو ، مجھے تو اس لڑکی کا باپ اور بھائی اب بھی ایک قلعے کا محاصرہ کر نے کے بعد اس میں فاتحانہ داخل ہوتے نظر آ رہے ہیں جن کی بدولت اگلی صبح ہمیں بہت زیادہ مال غنیمت میسر آیا تھا” مدینے کی گلیوں میں پہرے دار کے روپ میں گھو متے ہوئے ایک بچی کے رونے کی آواز حضرت عمر کے کانوں میں آئی تو آپ نے بلند آواز سے اسکی ماں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ”بی بی ! اللہ سے ڈر اور اپنے بچوں پر ترس کھا ”اس نے کہا میں اسکا دو دھ چھڑانا چاہتی ہوں کیو نکہ امیر المومنین دودھ پیتے بچوں کو وظیفہ نہیں دیتے۔ نماز فجر کے بعد حضرت عمر نے صحابہ سے کہا عمر بر باد ہو گیا پتا نہیں کتنے بچوں کا خون اسکی گردن پر ہے پھر فرمان جاری کیا کہ آج سے ہر بچے کا وظیفہ پیدا ہوتے ہی شروع ہو جائے گا۔ حضرت عمر کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر رہتی تھی کہ رعایا کی کوئی شکایت ان تک پہنچنے سے رہ نہ جائے ۔ آپ کا معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد صحن مسجد میں بیٹھ جاتے اور جسکو جو کہنا ہوتا اسکی سنتے اگر کوئی نہ ہوتا تو تھوڑی دیر انتظار کر کے اُٹھ جاتے ۔ زید بن اسلم راوی ہیں کہ مدینے میں قحط سالی کا دور تھا حضرت عمر اکثر روزے سے ہوتے تھے اور افطار میں روٹی کے چند ٹکڑے تیل میں بگوئے ہوئے استعمال کرتے تھے ایک دن بیت المال کا ایک اونٹ لوگوں کے لیے زبح کر وایا سب نے کھا یا اور جگر اور کوہان کا کچھ گوشت حضرت عمر کے لیے کر لیا ۔ معلوم ہونے پر آپ نے کہا میں خود چنی ہو ئی چیز یں کھائوں تو مجھ سے برا حاکم اور کوئی نہ ہو گا۔ قریب ہی شمع کی بستی ہے ،میں تین دن سے وہاں لوگوں کی خبر گیری کو نہیں جا سکا ۔ مجھے ڈر ہے وہ بھوک سے بلک رہے ہونگے جائو یہ گوشت ان تک پہنچا دو ۔ عمال کی تعیناتی پر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔ باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔ چھنا ہو ا آٹا نہیں کھائے گا۔ اپنے دروازے پر دربان کھڑا نہیں کریگا اور اپنا دروازہ ہر ضرورت مند کے لیے ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ یہ شرطیں پروانہ تقرری میں درج کر کے محمبع میںپڑھ کر سنائی جاتی تھیں ۔ ایک دفعہ آپ کے اپنے عمال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔” یا درکھو! رعایااس وقت تک امام کی پیروی کرتی ہے جب تک وہ خود اللہ کی اطاعت کرتا ہے جب وہ احکام خداوندی سے رو گردانی کرتا ہے تو رعایا اس کے احکام سے سرکشی اختیار کر لیتی ہے ۔ جب امام یا حاکم فسق و فجور اختیار کر لیتا ہے ۔ تو رعایا اس سے بڑھ کر فاسق و فاجر ہو جاتی ہے ” ایک موقع پر ارشاد فرمایا ۔” وہی حکومت درست رہ سکتی ہے۔ جس میں نرمی ہو لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اور جسمیں سختی ہو لیکن جبرواستبداد کی بنا پر نہیں۔ حضرت مغیرہ کو کوفہ کا گورنر بنانے کے بعد فرمایا ،” مغیرہ ! ایسا بن کر رہنا کہ پر امن تجھ سے بے خوف رہیں اور بد معاش خوف زدہ ، جو شر پیدا کر کے غالب ہو وہ غالب نہیں مغلوب ہے اور جس نے ناجائز طریقہ سے کامیابی حاصل کی وہ کامیاب نہیں بلکہ ناکام ہے ۔” عراق کے ایک وفد کو جسمیں حضرت احنف بن قیس بھی تھے ایک انقلاب آفرین فقرہ ارشاد فرمایا۔” جو شخص مسلمانوں کا والی بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ غلام کی طرح مخلص اور امین رہے ۔ حمص کے گورنر حضرت عبداللہ بن قرط کے خلاف یہ شکایت تھی کہ انہوں نے اپنے رہنے کے لئے بالا خانہ بنوالیا تھا۔ جس کی اجازت نہ تھی آپ نے بالا خانہ کو تو آگ لگوادی اور گورنر کو ایک جبہ پہنوا کر ہاتھوں میں ڈول دیکر کہا بیت المال کے اونٹوں کو پانی پلایا کرو تاکہ دماغ سے تفاخر کی بونکل جائے۔ شکایا ت سننے کے بعد یو نہی اندھا دھند مواخذہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ شکایا ت کی پوری چھان بین کی جاتی اور جس کے خلاف شکایت ہوتی اسے اپنی مدافعت کا پورا موقع دیا جاتا لیکن الزام درست ہونے پر سزا بھی پبلک میں دی جاتی ۔ ایک دفعہ حضرت عمر و بن عاص نے اس طریقہ کار کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عمال حکومت بد دل ہو جائیں گے اور رعایا کی انکے خلاف جراتیں بڑھ جائیں گی تو آپ نے فرمایا جو عامل انصاف کا تقاضا پورا کرنے پر بد دل ہوتاہے وہ منصب حکومت کے قابل ہی نہیں ۔ حضرت عمرفرمایا کر تے تھے ”اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اپنا محاسبہ کر لو اور اس سے پہلے کہ تمہیں تولا جائے ، تم اپنے آپ کو خود جانچ لیاکرو ” آپ ہر رات اپنے دن بھر کے اعمال کا خود محاسبہ کرتے تھے جس سے انہیں اصلاح احوال اور بہترین رویہ اپنانے میں مدد ملتی تھی۔
Hazrat Umar Farooq
سادگی کا یہ عالم تھا کہ حضرت امام حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے حضرت عمر بن خطاب کو منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تو انکے قمیض پرپیو ند لگے ہوئے تھے وہ لباس، رہن سہن اور خوراک میں بھی سادگی اختیار کرتے تھے ” اس سادگی اور تواضع کے باو جود ہیبت کا یہ عالم تھا کہ دور دراز کے گورنر اور جابر حکمران بھی آپ کا نام سن کر لر ز جاتے تھے حالانکہ نہ تو آپکے وزیر اور درباری تھے اور نہ ہی دربان و محافظ اولیات فاروقی: حضرت فاروق اعظم نے صر ف ساڑھے دس سال کی قلیل مدت میں وہ وعظیم الشان حکومت قائم کی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی اور طاقت ور حکومت تو تھی ہی اس حکومت میں ہرطرف امن وامان کا بول بالا بھی تھا۔ اس لئے بعض جہاں دیدہ مفکرین نے کہا ہے کہ اگر فاروق اعظم چند سال اور حکومت کر تے تو مملکت اسلامیہ کا نقشہ جدا ہوتا ۔ حضرت عمر نے بہت سی مالی و ملکی ، سیاسی و انتظامی و معاشرتی و تمدنی باتیں تجویز و ایجاد فرمائیں۔ انتظام حکومت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جو بھی اقدامات کئے یا اصلاحات نافذ کیں انہیں تاریخ اسلامی میں اولیات عمر یا اولیات فاروقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی وہ کام جو سب سے پہلے حضرت فاروق اعظم نے کیے ۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں ۔ خلیفہ وقت کے لیے امیر المومنین کا لقب سب سے پہلے آپ اختیار کیا، وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری اور حفاظت کا اولین شرف حاصل کیا۔ پولیس، ڈاک، قافلوں کے لیے سرائیں اور سہولیا ت، افراد امت کے عملی کار ناموں کی بنیاد یران کی درجہ بندی ، وظائف کا تعین اور باقاعدہ فوج کی رجسٹریشن اور تربیت کا سلسلہ سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا۔ مسلمان بچوں کیلئے تعلیم و تربیت کا عملی نصاب بھی سب سے پہلے آپ نے تیار کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت عمر اسلام کی تاریخ کے وہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے حاکم وقت ہونے کے ساتھ ساتھ فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ آپ نے اسلامی دنیا میں سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں صفوان بن رمیہ کے مکان کو خرید کر پہلا جیل خانہ بنوایا۔ وظائف کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے سید نا فاروق اعظم نے پہلی مرتبہ مردم شماری کرائی تاکہ رعایا کے حالات پوری طرح حکومت کی نظر میں ہوں ۔ مملکت کی پوری خبر گیری کے لیے آپ نے تمام علاقوں میں وہاں کی خبر یں حاصل کرنے کے لیے پر چہ نویس مقر ر کئے معلوم ہوا آپ میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے واقف تھے حکومت کے نظام کو چلانے کے لیے اسلامی ریاست کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا۔ زراعت کی ترقی و عشر اور خراج کے نظام کی بہتری کے لیے حضرت عمر نے زمین کی پیمائش کرائی ۔ ماہ صیام میں باجماعت نماز تراویح سے مساجد کو رونق بخشنے والے بھی آپ ہیں ۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰة مقرر کی ۔ نماز جنازہ میں چار تکبیر وں پر سب کا اجماع کیا۔ مساجد کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے سب سے پہلے امام اور موذن مقررکر کے انکی تنخوا ہیں بھی مقرر کیں ۔ ہاتھ میں در ہ رکھنے والے سب سے پہلے حکمران بھی آپ تھے۔ تقویم ہجری کو سب سے پہلے آپ نے رواج دیا۔ اسلام کی تاریخ میں جام شہادت نوش کرنے والے سب سے پہلے حکمران بھی آپ ہی ہیں۔ اس طرح کے کئی اصلاحی و رفاعی کاموں کی آپ نے بنا ڈالی۔ہر ایک پر تبصرہ کرنے کی بجائے بخوف طوالت صرف طائرانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے اولاد: حضرت عمر کے تیرہ بیٹے بیٹیاں تھے۔ آپ نے نو شادیاں کیں۔ عبداللہ، عبدالرحمن اور ام المومنین سید ہ حفصہ کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا زیر ، اکبر اور رقیہ ، سیدہ ام کلثوم بنت علی کے بطن سے تھے۔
Prayer
زید، اصغر اور عبید اللہ کی ماں ام کلثوم بنت جرول تھیں۔ عاصم کی والدہ کا نام جمیلہ تھا۔ عبدالرحمن اوسط کی والدہ ام ولد تھیں جنکا نام لحصیہ تھا۔ عبدالرحمن اصغر بھی ام ولد کی اولاد تھے۔فاطمہ کی ماں کانام ام حکیم بنت حارث تھا۔ عالقة بنت زید کے بطن سے عیاض پید اہو ئے۔ زینب کی ماں بھی ام ولد تھیں انکا نام فکیھة تھا۔ وفات:حضرت فاروق اعظم نماز خود پڑھا یا کرتے تھے اس سے معلوم ہو کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کو امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اسلامی مملکت کے دوسرے امور پر توجہ دینا۔ آخر وہ دن آ پہنچا کہ آپ نماز پڑھانے کیلئے تشریف لائے۔ مکبر نے تکبیر کہی اور آپ نے حسب معمول صفیں درست کر ا کے اللہ اکبر پکار کر امامت شروع کر دی پھر پہلی رکعت میں سورة یوسف یا سورة نحل پڑھی تاکہ لوگوں کو نماز میں شمولیت کا موقع مل جائے پھر جیسے ہی آُ پ اللہ اکبر کہا تو ساتھ ہی آواز آئی ‘ ‘ مجھے کتے نے مار ڈالا مجھے کتے نے کھا لیا ” ابو لو لو مجوسی نے گھات سے نکل کر آپ پر تیز دھار زہر آلود خنجر سے چھ وار کیے۔ دو کو کھ مبارک ، دو کندھے کے قریب اور دو ناف کے قریب ، آپ زخموں سے چور ہو گئے مگر پھر بھی توجہ الی اللہ کا عالم یہ تھا کہ فوراََاپنے پیچھے کھڑ ے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ امامت کیلئے کھڑا کر دیا۔ قاتل دو دھاری خنجر سے دائیں بائیں وار کرتا ہوا ”صفوں سے گزرا جس سے تیرہ آدمی زخمی اور سات شہید ہوئے۔آخر ایک صحابی نے اس پر حببہ پھینک دیا۔ قاتل کو جب گرفتاری کا یقین ہو گیا تواُس نے خود کشی کر لی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اسی حالت میں نماز پڑھائی ۔ جو نہی نماز پوری ہوئی صحابہ تڑپ کر رہ گئے پوری مسجد نبوی میں کہر ام بپا ہو گیا کیو نکہ اسلام کی عمر بھی توعمر کے ہاتھوں بڑھی ہے۔ حضرت عمر نے عبداللہ ابن عباس سے کہا” دیکھو! مجھے قتل کر نے والا کون ہے ” عرض کیا گیا حضور ، فیروز نامی ابو لولو مجوسی تھا جو مغیرہ بن شعبہ کا غلا م ہے۔ تو آپ نے فرمایا ” خدا اسے غارت کر ے میں نے تو اسکی بہتری کے لئے احکامات جاری کئے تھے۔ الحمد للہ ! میں ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو” پھر آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو ام المومنین سید ہ عائشہ کے در دولت پر اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ انہیں بھی اپنے حجرہ میں دفن ہونے کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ تو سید ہ عائشہ نے فرمایا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن فاروق اعظم کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہوئے دل و رضا سے اجازت دیتی ہوں۔ پھر آپ نے خلافت کے لئے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے نام تجویز کئے اور فرمایا میں ان ارکان کے نام کسی ذاتی پسند کی وجہ سے نہیں بلکہ زبان نبوت سے سنے ہوئے فضائل کی بنیا د پر تجویز کئے ہیں ۔ میرے خاندان کے لوگ اس معاملہ میں تمہارے ساتھ ضرور ہو نگے لیکن عہدہ خلا فت کیساتھ میرے بیٹے عبداللہ وغیرہ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ بالا آخر حزمراد رسول اور خلیفہ ثانی اسلام اور عالم اسلام کو یتیم کر کے رفیق اعلیٰ کے حضور جا پہنچے۔ آپ ٢٦ ذوالحجہ بروز بدھ زخمی ہوئے اور ٢٩ ذوالحجہ ٢٣ھ بمطابق ٢٤٤ء کو دار بقاء روانہ ہو گئے اور یکم محرم الحرام ٢٤ھ کو اپنے آقا و مولا کے پہلو میں دفن کئے گئے بو قت وصال آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔ حضرت صہیب رومی نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عثمان غنی اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے آپکو قبر میں اتارا، احادیث مبارک سے معلوم ہوا ہے کہ جس آدمی کی مٹی جہاں سے لی گئی ہوتی ہے اس کو وہیں دفن کیا جاتا ہے ۔ اس سے پتا چلا کہ فاروق اعظم کے جسم اطہر کو بنانے کے لئے جو مٹی لی گئی تھی وہ حضورۖ کے روضہ اقد س میں سے لی گئی تھی اسی لیے فاروق اعظم کو سرکا ر دو عالمۖ اور صدیق اکبر کے پہلو میں جہاں اللہ کی کروڑوں رحمتیں شب وروزبرستی ہیں دفن ہونے کی جگہ ملی ہے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ اور بقول شاعر : کوئی اہل بیت سے آپکو جو نکال دے یہ مجال کیا کہ عمر کی تربت پاک بھی تو رسول پاک کے گھر میں ہے۔