اسلامی سال محرم الحرام کے عظیم بابرکت مہنیے سے شروع ہوتا ہے۔قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے کہ اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی قربانی کا اور سال کا پہلا مہنیہ بھی قربانی اور عظمت والا ہے۔یوں تو اسلامی سال کا ہر دن ،ہر مہینہ مبارک ،عظمت والا ہے لیکن چند مہینے ان پر فوقیت رکھتے ہیں۔ان چند میں سے ایک محرم الحرام کا مہینہ بھی ہے۔جس کے پہلے دن یعنی یکم محرم الحرام کو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے۔حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیسرے دن جام شہادت نوش فرما گئے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اتنے بہادر تھے کہ کفار کے لوگ ٹھرٹھر کانپتے تھے اور حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سینے میں اللہ تعالیٰ کااتنا ڈر ،خوف تھا کہ راتوں کو سو نہیں سکتے تھے۔آپ کا دور خلافت عمدہ مثالوں سے مزین ہے۔آپ کے دور حکومت میں عدل و انصاف ہوتا تھا۔دن کو تحت پر بیٹھتے تھے تو راتوں کو گلی گلی کا گشت فرماتے اور خبر لیتے تھے کوئی بھوکا تو نہیں سویا۔کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ۔صدقے جائوں ایسی عظیم ہستی پرجن کے سینے میں خوف خدا تھا اور رب تعالیٰ کی مخلوق سے بے حد پیاربھی۔
آپ کے بارے میں یہاں تک روایت ہے کہ آپ راتوں کو سو نہیں سکتے تھے فرماتے تھے اگر میرے دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے کُتا بھی بھوکا مر گیا تو اپنے رب کے حضور کیا جواب دوں گا۔لیکن آج کے حکمرانوں کے سینوں میں دل ہی نہیں ہے جس میں رب تعالیٰ کا خوف ہو۔ آج ہم ویلنٹاٹن ڈے مناتے ہیں،اسی طرح کے کئی یہودیت کی رسموں کو بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔لیکن خلفائے راشدین کے یوم ولادت بھول گئے۔اسلامی رسم ورواج کو بھول گئے۔
یورپی کلچر کو اپنے اوپر مسلط کر لیا۔آج ہمارا ملک تو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے مگر یہاںکوئی رسم ،کوئی طریقہ اسلامی نہیں رہا۔عدل رہا نہ عدل کرنے والے رہے۔۔چوروں،ڈاکوئوں ،لیٹروںنے اس ملک کے چپے چپے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔یہ لیٹرے اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ فلاحی تنظموں کو نہیں چھوڑتے۔یتیموں ،مسکینوں کے منہ کا نوالہ تک چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔افراتفری،انتشار پھیل گیا ہے۔نہ حکمران عدل کرتے ہیں نہ عدالتیں انصاف فراہم کر پا رہی ہیں۔رشوت،کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں غریب غربت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔امیروں کی شہنشاہی آسمان کو چھو رہی ہے۔
کہا ں پیارے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ،کہاں موجودہ حکومت۔اُس دور میں کتا بھی بھوکا نہ مر جائے اس خوف سے راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھیں اور اب انسانوں کو کتوں کی طرح موت کے گھاٹ اتا ر دیا جاتا ہے۔کسی کو خبر تک نہیں ہے۔کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی ۔خبر ہے بھی تو دو بول تعزیت کے کہنے کی فرصت ہی نہیں۔جگہ جگہ ،گلی گلی انسانوں کو جانوروں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔کم سن لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد ہو رہا ہے۔جاگیرداروں نے مزارعوں کو کچل کر رکھ دیا ہے۔عورتوں پر وحشیانہ تشدد ہو رہا ہے۔
Law
سیاستدان ڈالز کے دیوانے ہیں۔ان کے بچے کن کو نوچ رہے ہیں،کن کے حق پر ڈاکہ مارے رہے ہیں۔؟کوئی نہیں دیکھتا، کسی کو فرصت ہی ہے۔ قانون اندھاتو تھا ہی اب بہرہ بھی ہو گیا ہے۔جھوٹ کی بہتات ہے۔ یوں سمجھیں جھوٹ کے بغیر کوئی کام ہوتا بھی نہیں ہے۔
حکمرانوں سے لیکر عوام تک کوئی انصاف نہیں کر رہا ہے۔دہائی دیتے نظر ضرور آتے ہیں۔خدا تعالیٰ سے شکوے کرتے ہیں۔دنیاداری میں محو ہیں آخرت کی خبر نہیں ہے۔کتنے حسین مٹی میں دب گئے،کتنے جان کی بازی ہار گئے۔کسی نے عبر ت نہیں لی۔سبھی نوچنے ،ڈبوچنے پر تلے ہیں۔
اب کی بار سال نو شروع ہو گیا ہے۔سچ تو یہ ہے مسلمان ہو کر بھی اسلامی مہنیوں کے نام تک نہیں آتے۔فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔انگریزوں نے ہمیں آپس میں لڑا دیا ہے۔ہم اپنوں کو اپنے ہی ہاتھوں موٹ کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔اپنے ہی ملک میں افراتفری پھیلا رہے ہیں۔سوچنے کی فرصت ہی نہیں ۔عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی عقل سے عاری ہو گئے ہیں۔
یہی محرم الحرام تو تھا جب حضر ت امام حسین نے دین حق کی خاطر اپنے بہتر نوجوان کربلا کے میدان میں قربان کر دیئے۔لیکن آج کا مسلمان آپس میں دست گربیان ہے۔پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔کہاں دور خلافت کہاں آج کا دور؟اب صرف اور صرف عدل انصاف کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔اب حکمران ظالم بن کر رہ گئے ہیں۔ان کی گاڑیوں کے تلے غریب کچلے جا رہے ہیں۔
سچ ہی تو ہے جب انصاف کرنے والے ناانصافیاں کرنے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔یہ عذاب ہی تو ہے کہیں پینے کے لئے پانی نہیں ہے تو کہیں پانی انسانوں کو سیلاب بن کر نکل رہا ہے۔کہیں زمین پھٹ رہی ہے تو کہیں بارش زحمت بن رہی ہے۔آج اسلامی جمہوریہ پاکستان بھوک، پیاس، بحران کے مسائل سے دوچار ہے۔اندرونی بیرونی خطرات سر اٹھائے کھڑے ہیں۔حکمران آپس میں دست گربیان ہیں۔عوام مر رہی ہے،تڑپ رہی ہے۔
اب بھی وقت ہے ہمیں یورپی طرز زندگی چھوڑ کر اسلامی طرز زندگی اپنا لینی چاہیے ۔دین اور دنیا دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہئے اور اپنے پیارے آقا حضرت محمد ۖ کے اسو ہ حسنہ پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے ۔اسی میں ہماری بھلائی اور نجات ہے۔اللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین!۔